زرداری گروپ کی لین دین سے متعلق میرے والد سے پوچھیں، بلاول کا جے آئی ٹی کو جواب

بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے جے آئی ٹی کو جواب میں کہا گیا کہ ان کے والد آصف علی زرداری تمام کاروباری معاملات دیکھ رہے تھے—۔فائل فوٹو

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قانونی ٹیم نے جعلی بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو اپنے تحریری جواب میں بتایا ہے کہ ان کے موکل کو زرداری گروپ پرائیویٹ لمیٹڈ کی لین دین کے حوالے سے علم نہیں۔

ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے جے آئی ٹی کو دیئے گئے تحریری جواب میں کہا گیا کہ ان کے والد آصف علی زرداری تمام کاروباری معاملات دیکھ رہے تھے۔

اس تمام پیش رفت سے آگاہ ذرائع نے جیو ٹی وی کو بتایا کہ بلاول نے اپنے جواب میں دعویٰ کیا کہ اگرچہ یہ درست ہے کہ وہ زرداری گروپ پرائیویٹ لمیٹڈ کے ڈائریکٹرز میں سے ہیں، تاہم انہوں نے کاروباری معاملات میں حصہ نہیں لیا۔ تمام معاملات ان کے والد آصف علی زرداری دیکھتے تھے لہذا جے آئی ٹی کو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس سے متعلق اُن سے ہی پوچھ گچھ کرنی چاہیے۔

فاروق ایچ نائیک کی سربراہی میں اپنی قانونی ٹیم کے توسط سے جمع کروائے گئے تحریری جواب میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ وہ زیادہ تر بیرون ملک مقیم رہے اور 2016 میں پاکستان میں ٹیکس دہندہ بنے، لہذا پانی کا بل، کھانے پینے کے اخراجات، کرایہ اور دیگر لین دین اور کاروباری معاملات ان کے والد دیکھا کرتے تھے، لہذا بہتر یہی ہے کہ اس حوالے سے اُن سے پوچھا جائے۔

ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی، زرداری گروپ لمیٹڈ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بلاول بھٹو زرداری سے پوچھ گچھ کرنا چاہتی تھی، تاہم چیئرمین پیپلز پارٹی نے جے آئی ٹی سے درخواست کی تھی کہ تفتیش کاروں کے سامنے ذاتی حیثیت میں پیش ہونے سے قبل انہیں سوالنامہ دیا جائے، جس پر دو روز قبل انہیں سوالنامہ بھجوایا گیا تھا۔

جس کے بعد گذشتہ روز بلاول بھٹو زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے ان کے توسط سے جے آئی ٹی کو تحریری جواب جمع کروایا۔

جعلی بینک اکاؤنٹس کیس

واضح رہے کہ ایف آئی اے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کررہی ہے اور اس سلسلے میں اومنی گروپ کے سربراہ اور آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید، ان کے صاحبزادے عبدالغنی مجید اور نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی ایف آئی اے کی حراست میں ہیں۔

اسی کیس میں تشکیل دی گئی جے آئی ٹی میں سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور پیش ہوچکے ہیں۔

تحقیقات میں تیزی کے بعد سے اب تک کئی جعلی اکاؤنٹس سامنے آچکے ہیں جن میں فالودے والے اور رکشے والے کے اکاؤنٹس سے بھی کروڑوں روپے نکل چکے ہیں۔

واضح رہے کہ ملک میں بڑے بزنس گروپ ٹیکس بچانے کے لیے ایسے اکاؤنٹس کھولتے ہیں، جنہیں 'ٹریڈ اکاؤنٹس' کہاجاتا ہے اور جس کے نام پر یہ اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے، اسے رقم بھی دی جاتی ہے۔ اس طرح کے اکاؤنٹس صرف پاکستان میں ہی کھولے جاتے ہیں اور دنیا کے دیگر حصوں میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔

جعلی بینک اکاؤنٹس کیس پہلی مرتبہ کب سامنے آیا؟

ایف آئی اے حکام کے مطابق جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا تھا، جب اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

حکام کے دعوے کے مطابق بینک منیجرز نے جعلی اکاؤنٹس انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی، دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔

دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی، ان کی تعداد 29 تھی جن میں سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس شامل ہیں۔ ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔

21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔ ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی اور انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید اور عبدالغنی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔

حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔

ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔

حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

جس کے بعد اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔