Time 17 جنوری ، 2019
پاکستان

قسط نمبر دو: جعلی اکاؤنٹس، جعلی کمپنیاں اور منی لانڈرنگ

تمام جعلی  اکاؤنٹس کو 2015 سے 2017 کی خاص مدت تک چلایا گیا۔ فوٹو: فائل

ابتداء میں ایف آئی  اے کو چار جعلی اکاؤنٹس کا پتہ چلا اور جے آئی ٹی کی مزید تحقیقات میں تعداد 32 تک پہنچ گئی۔ گیارہ جعلی کمپنیاں بنا کر ان کے ذریعے یہ اکاؤنٹس چلائے گئے۔

منی لانڈرنگ میں جعلی اکاؤنٹس کا انکشاف سال 2015 میں ایف آئی اے کی سورس رپورٹ پر تحقیقات میں سامنے آئیں۔

ابتدائی طور پر ایف آئی اے کو پتہ چلا کہ چار جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے رقوم کی منتقلی کی گئی ہے، یہ رقوم سمٹ بینک کی دو برانچوں سے بھیجی گئی تھیں، ان تمام اکاؤنٹس کو 2015 سے 2017 کی خاص مدت تک چلایا گیا۔

جے آئی ٹی کی تحقیقات میں جعلی اکاؤنٹس کی تعداد 32 تک پہنچ گئی، جنہیں 11 جعلی کمپنیوں کے نام سے کھولا گیا تھا۔ ان کمپنیوں میں عمیر ایسوسی ایٹس، اقبال میٹل، لاجسٹک ٹریڈنگ،  اے ون انٹرنیشنل، رائل انٹرنیشنل، ابراہیم لنکرز، لکی انٹرنیشنل، اوشین انٹرپرائزز، ڈریم ٹریڈنگ، رائل ٹریڈرز اور گیٹ وے آئرن اسٹیل شامل ہیں۔

ان کمپنیوں کے 15 اکاؤنٹس سمٹ بینک، 8 یونائیٹڈ بینک، 7 سندھ بینک، ایک ایم سی بی اور ایک فیصل بینک میں کھولا گیا۔

جے آئی ٹی کی تحقیقات میں یہ سامنے آیا کہ یہ اکاؤنٹس اومنی گروپ کے سی ای او اسلم مسعود اور اکاؤنٹنٹ محمد عارف نے آپریٹ کئے جب کہ رائڈر قاسم علی اور آفس بوائے محمد عمیر نے اس میں معاونت کی۔ پانچ بینک منیجرز کی سہولت کاری کے ثبوت بھی جے آئی ٹی کو ملے۔

ان اکاؤنٹس کے کاروباری پتے کو اکاؤنٹ کھولنے کے لیے درج کرائے گئے زیادہ تر انٹرنیشنل بزنس شاپنگ سینٹر آئی بی ایس سی صدر کراچی کے تھے جو پارک لین پرائیویٹ لمیٹڈ کا حصہ ہے۔

جعلی اکاؤنٹس میں 8 عام شہریوں، تین اومنی گروپ کے ملازمین کے شناختی کارڈز کو استعمال کیا گیا۔ جعلی اکاونٹس تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ تمام اکاؤنٹس اومنی گروپ کے سی ایف او اسلم مسعود اور اکاونٹنٹ محمد عارف خان کی ہدایت پر کھولے اور استعمال کئےگئے۔

اکاؤنٹس کو چلانے میں مصطفی میمن، اشرف ڈی بلوچ اور شیر محمد مغیری بھی شامل رہے۔

جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ بتایا گیا کہ جب اکاؤنٹس میں پیسے کی ترسیل کو چیک کیا گیا تو اس میں انور مجید، عبدالغنی مجید، نورین سلطان، کرن امان، عدیل شاہ راشدی، طحٰہ رضا، حسین لوائی، نصیر عبداللہ، فریال تالپور اور آصف علی زرداری کے نام سامنے آئے۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان اکاونٹس سے زرداری گروپ اور خاندان، سرکاری محکموں، بحریہ ٹاؤن اور سرکاری ٹھیکیداروں کی ترسیلات زر منسلک نظر آئیں۔

سات اکاؤنٹس عمیر ایسوسی ایٹس سے منسلک ہیں جو اومنی گروپ کے آفس بوائے محمد عمیر کے نام پر کھولے گئے جو اب دبئی میں مقیم ہے، ان سات اکاؤنٹس سے 10 ارب روپے سے زائد رقم کی ترسیلات کی گئیں۔

ان اکاؤنٹس کو بڑی مہارت سے آپریٹ کیا گیا جس تک پہنچنے کے لیے وائٹ کالر کرائم کے کئی شعبوں کے ماہرین کی خدمات لینی پڑیں۔

آئندہ تحریروں میں جعلی اکاؤنٹس کی ترسیلات کے بارے میں بھی تفصیل سے قارئین کوآگاہ کریں گے۔

نوٹ: جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

مزید خبریں :