Time 27 جنوری ، 2019
دنیا

طالبان اور امریکا کے درمیان 17 سال سے جاری افغان جنگ کے خاتمے کا معاہدہ

دوحہ میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں 18 ماہ کے اندر افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء پر اتفاق کر لیا گیا، جنگ بندی کا شيڈول آئندہ چند روز میں طے کیا جائے گا— فوٹو: فائل

دوحہ: افغان طالبان اور امریکا کے درمیان گزشتہ 17 سال سے جاری افغان جنگ کے خاتمے کا معاہدہ طے پا گیا۔

اطلاعات کے مطابق دوحہ میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں 18 ماہ کے اندر افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء پر اتفاق کر لیا گیا۔

جنگ بندی کا شيڈول آئندہ چند روز میں طے کیا جائے گا جبکہ طالبان جنگ بندی کےبعد افغان حکومت سے براہ راست بات کریں گے ۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ گزشتہ 6 روز سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری مذاکرات کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مصالحتی عمل زلمے خلیل زاد پیش رفت سے افغان صدر اشرف غنی کو آگاہ کرنے کیلئے کابل روانہ ہوگئے ہیں۔

زلمےخلیل زاد کہتے ہیں کہ دوحہ مذاکرات میں مرکزی معاملات پر اہم پیش رفت ہوئی ، ابھی کئی معاملات پر بات ہونا باقی ہے ، جب تک سب باتوں پر اتفاق نہیں ہوجاتا کچھ بھی منظور نہیں ہوگا۔

یہ واضح نہیں کہ آیا معاہدے کے حوالے سے مشترکہ اعلامیہ جاری ہوگا اور معاہدے میں شامل تمام شقوں کو امریکا نے قبول کیا ہے یا نہیں۔ اس حوالے کابل میں امریکی سفارتخانے کی جانب سے بھی کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔

طالبان ذرائع کے مطابق طالبان نے امریکا کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ افغانستان کی سرزمین القاعدہ یا داعش کو امریکا اور اس کے اتحادیوں پر حملے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اور یہی امریکا کا مرکزی مطالبہ تھا۔

طالبان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں جنگ بندی کے حوالے سے دورانیے کو حتمی شکل دیں گے تاہم افغان حکومت کے نمائندوں سے صرف اس وقت بات چیت ہوگی جب جنگ بندی کا نفاذ ہوجائے گا۔

طالبان ذرائع کے مطابق معاہدے کے دیگر نکات میں قیدیوں کا تبادلہ، طالبان رہنماؤں پر عائد سفری پابندیوں کا اختتام اور سیز فائر کے بعد افغانستان میں عبوری حکومت کا قیام شامل ہیں۔

ابھی کئی معاملات پر بات ہونا باقی ہے، زلمے خلیل زاد

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مصالحتی عمل زلمےخلیل زاد نے سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں کہا ہے کہ دوحہ میں 6 روز کے مذاکرات کے بعد بات چیت کیلئے افغانستان جارہا ہوں، دوحہ میں ملاقاتیں ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ تعمیری رہیں۔

زلمےخلیل زاد نے مزید کہا کہ مرکزی معاملات پر اہم پیش رفت ہوئی، بات چیت کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے جلد مذاکرات کا آغاز کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی کئی معاملات پربات ہوناباقی ہے، جب تک سب باتوں پراتفاق نہیں ہوجاتا کچھ بھی منظور نہیں ہوگا، سب باتوں پر اتفاق میں افغانوں کے مابین مذاکرات، جامع جنگ بندی شامل ہے۔

زلمے خلیل زاد نے کہا کہ مذاکرات کرانے کے لیے قطر حکومت کے شکرگزار ہیں، قطر حکومت کے تعمیری تعاون کا شکریہ، خصوصی طور پر قطر کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی شمولیت پر شکر گزار ہیں۔

جنگ بندی سے متعلق معاہدہ اور کابل انتظامیہ سے بات چیت کی خبروں میں صداقت نہیں، افغان طالبان 

ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان 6 روزہ مذاکرات ہوئے جس میں امریکی وفد سے افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا پر بات ہوئی۔

ترجمان نے بتایا کہ امریکا سے دیگر اہم معاملات پر بھی بات چیت میں پیشرفت ہوئی۔

ترجمان کے مطابق قطر مذاکرات میں طالبان کی پالیسی بہت واضح تھی کہ افواج کے انخلا کا معاملہ طے ہونے تک دیگر معاملات پر پیشرفت نہیں ہوگی۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ بات چیت کیلئے قطرکے تعاون کے شکر گزار ہیں، جنگ بندی سےمتعلق معاہدہ اور کابل انتظامیہ سے بات چیت کی خبروں میں صداقت نہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ حساس اور غیرحل شدہ معاملات پر مذاکرات کیلئے مستقبل میں بات چیت کی جائے گی اور مذاکرات میں معاملات کامناسب اور پُراثر حل تلاش کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ افغان طالبان اور امریکی حکام کے درمیان قطر میں گزشتہ ایک ہفتے سے مذاکرات جاری تھے جن میں جنگ بندی اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء پر غور کیا جارہا تھا۔

غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی حکام ایسے امن معاہدے کے خواہاں ہیں جس کے تحت طالبان کی آئندہ افغان حکومت میں شمولیت کی راہ ہموار ہوسکے۔ امریکی حکام کا یہ بھی اصرار ہے کہ طالبان موجودہ افغان حکومت سے مذاکرات کا آغاز کریں تاہم طالبان اب تک اس سے انکار کرتے آئے ہیں۔

اس سے قبل گزشتہ برس دسمبر میں بھی پاکستان کی معاونت سے متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں افغان امن مذاکرات ہوئے تھے جس میں طالبان سمیت فریقین نے مذاکراتی عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔

اس وقت یہ بات سامنے آئی تھی کہ مذاکرات میں شریک طالبان نمائندے اپنی شوریٰ سے بات کریں گے اور شوریٰ سے بات چیت کے بعد دوبارہ زلمےخلیل زاد سے ملاقات کریں گے۔

یاد رہے کہ پاکستان کی معاونت سے شروع ہونے والے مذاکرات میں امریکا اور افغان طالبان کے علاوہ اماراتی اور سعودی حکام بھی حصہ تھے۔

دسمبر کے مہینے میں ہی وزیراعظم عمران خان کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خط لکھا تھا جس میں پاکستان سے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے تعاون مانگا گیا تھا جس کے جواب میں وزیراعظم نے کہا تھا ہم افغانستان میں امن لانے کے لیے خلوص کے ساتھ پوری کوشش کریں گے، اس کے بعد طالبان اور امریکی حکام کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے تھے۔

مزید خبریں :