30 جنوری ، 2019
کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں مفرور 7 ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے جب کہ کیس کے تفتیشی افسر ایس پی ڈاکٹر رضوان نے پیش ہو کر مفرور ملزمان کی گرفتاری سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا۔
تفتیشی افسر نے بتایا کہ 7 مفرور ملزمان میں امان اللہ مروت، شعیب شوٹر، اظہر شامل ہیں جنہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہوئی جب کہ اس حوالے سے ایف آئی اے اور آئی بی کو خطوط لکھے گئے ہیں۔
تفتیشی افسر نے مفرور ملزمان کو نوکری سے برطرفی کے احکامات عدالت میں پیش کیے اور بتایا کہ ملزمان کے شناختی کارڈ بلاک کرا دیے گئے ہیں۔
عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ 'مفرور ملزمان کو گرفتار کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے یا بس خانہ پوری کی ہے' جس پر ڈاکٹر رضوان نے کہا کہ ملزمان کی گرفتار کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔
عدالت نے 7 مفرور ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کرنے کا حکم دیتے ہوئے تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان کا مفرور ملزمان سے متعلق بیان ریکارڈ کرلیا۔
کیس کی مزید سماعت 9 فروری تک ملتوی کردی گئی ہے۔
نقیب اللہ قتل کیس کا پس منظر
گزشتہ برس 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
27 سالہ نقیب اللہ محسود کی موت کے بعد ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جس میں انہیں ایک ماڈل کے انداز میں دیکھا گیا اور پولیس کی جانب سے اسے دہشت گرد قرار دے کر مارا گیا تو سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی۔
اس خبر نے پورے ملک کو اپنی جانب متوجہ کیا اور معاملہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا اور کراچی، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں نقیب اللہ محسود کے حق اور پولیس کے خلاف احتجاج کیا گیا اور کئی روز دھرنا جاری رہا۔
سپریم کورٹ نے بھی جعلی مقابلے کا نوٹس لیا اور پھر ریٹائر ہوجانے والے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت دیگر کے خلاف دو مقدمات درج کیے۔
موجودہ آئی جی گلگت بلتستان ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک جے آئی ٹی بنائی گئی اور پھر ایڈیشنل آئی جی آفتاب پٹھان کی سربراہی میں دوسری کمیٹی بنائی گئی۔
بعدازاں تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا جب کہ دونوں کمیٹیوں نے نقیب اللہ کے خلاف کسی بھی قسم کے ثبوت ملنے کی تردید کی۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت اب بھی جاری ہے۔
سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور ان کی ٹیم کی گرفتاری کے لیے بہت کوششیں کی گئیں اور کچھ اہلکار گرفتار بھی ہوئے تاہم راؤ انوار نے خود ہی ڈرامائی انداز میں سپریم کورٹ پہنچ کر گرفتاری دی جس کے بعد انہیں کراچی منتقل کیا گیا اور وہ ضمانت پر رہا ہیں۔
تاہم ایک برس بعد بھی اس کیس کو اب تک حتمی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکا اور تحقیقات اب بھی جاری ہیں لیکن اس کی رفتار بہت سُست ہے۔