پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتار پور راہداری کے تیکنیکی امور طے پاگئے



لاہور: پاکستان اور بھارت کے تیکنیکی ماہرین نے کرتار پور راہداری کے لیے سڑک کی اونچائی سمیت دیگر تیکنیکی امور طے کرلیے۔

زیرو پوائںٹ پر دونوں ممالک کے تیکنیکی ماہرین کے مذاکرات تین گھنٹے تک جاری رہے جس کے دوران راہداری منصوبے کے تیکنیکی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جب کہ دونوں جانب سے سڑک کی اونچائی، ڈیزائن سمیت کئی معاملات پر اتفاق کیا گیا۔

تکنیکی ماہرین کی سروے رپورٹس کے بعد کراسنگ پوائنٹس پر اتفاق رائے کیا جائے گا اور پاک بھارت کرتارپور راہداری مذاکرات کا اگلا دور 2 اپریل کو واہگہ میں ہوگا۔

ترجمان دفتر خارجہ  ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ کرتار پور راہداری کھولنے کا فیصلہ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں سنگ میل ہے، امید ہے منصوبہ جلد مکمل ہوجائے گا۔

منصوبے پر مذاکرات کے لیے اس سے قبل 14 مارچ کو ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کی قیادت میں ایک 18 رکنی وفد اٹاری گیا تھا جہاں بھارتی حکام سے کرتار پور راہداری منصوبے پر مذاکرات کیے گئے۔

پاکستان گوردوارہ صاحب سے سرحد تک اپنی حدود میں کرتارپور کوریڈور فیز ون میں ساڑھے 4 کلو میٹر سڑک تعمیر کرے گا، اسی طرح بھارت بھی اپنی حدود میں سرحد تک راہداری بنائے گا۔

منصوبہ مکمل ہونے پر یاتریوں کو کرتارپور کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں پڑے گی تاہم اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان حتمی بات چیت ہونا باقی ہے۔

کرتار پور کی تاریخی اہمیت

لاہور سے تقریباً 120 کلومیٹر کی مسافت پر ضلع نارووال میں دریائے راوی کے کنارے ایک بستی ہے جسے کرتارپور کہا جاتا ہے، یہ وہ بستی ہے جسے بابا گرونانک نے 1521ء میں بسایا اور یہ گاؤں پاک بھارت سرحد سے صرف تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

نارووال شکر گڑھ روڈ سے کچے راستے پر اتریں تو گوردوارہ کرتار پور کا سفید گنبد نظر آنے لگتا ہے، یہ گوردوارہ مہاراجہ پٹیالہ بھوپندر سنگھ بہادر نے 1921 سے 1929 کے درمیان تعمیر کروایا تھا۔

گرو نانک مہاراج نے اپنی زندگی کے آخری ایام یہیں بسر کیے اور اُن کی سمادھی اور قبر بھی یہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ کرتارپور سکھوں کے لیے مقدس مقام ہے۔

بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کو کرتارپور تک پہنچنے کے لیے پہلے لاہور اور پھر تقریباً 130 کلومیٹر کا سفر طے کرکے نارووال پہنچنا پڑتا تھا جب کہ بھارتی حدود سے کرتارپور 3 سے 4 کلو میٹر دوری پر ہے۔

ہندوستان کی تقسیم کے وقت گوردوارہ دربار صاحب پاکستان کے حصے میں آیا، دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث طویل عرصے تک یہ گوردوارہ بند رہا۔

مزید خبریں :