پاکستان
Time 17 جولائی ، 2019

عالمی عدالت انصاف نے جاسوس کلبھوشن کی بریت کی بھارتی درخواست مسترد کردی


دی ہیگ: عالمی عدالت انصاف نے پاکستان سے گرفتار ہونے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کی بریت کی بھارتی درخواست مسترد کردی۔

عالمی عدالت انصاف کے صدر جج عبدالقوی احمد یوسف نے دی ہیگ کے پیس پیلس میں کلبھوشن کیس کا فیصلہ سنایا۔

عالمی عدالت انصاف نے بریت کی بھارتی درخواست مسترد کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ کلبھوشن جادھو کو سنائی جانے والی سزا کو ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 کی خلاف ورزی تصور نہیں کیا جاسکتا۔

عالمی عدالت انصاف کے صدر جج عبدالقوی احمد یوسف نے دی ہیگ کے پیس پیلس میں کلبھوشن کیس کا فیصلہ سنایا— فوٹو: سوشل میڈیا

عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن کی رہائی اور بھارت واپسی کی بھارتی درخواست بھی مسترد کردی جبکہ کلبھوشن کی پاکستان کی فوجی عدالت سے سزا ختم کرنے کی بھارتی درخواست بھی رد کردی گئی۔

عالمی عدالت انصاف نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے اور اسے دی جانے والی سزا پر نظر ثانی کرے۔

جج نے کہا کہ پاکستان کی ہائیکورٹ جادھو کیس پر نظر ثانی کر سکتی ہے، ہمارےخیال میں پاکستان کی سپریم کورٹ بھی نظر ثانی کا حق رکھتی ہے۔

فیصلہ سننے کیلئے پاکستان کی ٹیم اٹارنی جنرل کی قیادت میں دی ہیگ پہنچی تھی— فوٹو: سوشل میڈیا

فیصلہ سناتے ہوئے جج نے کہا کہ پاکستان کلبھوشن جادھو کو قونصلر رسائی دے جج عبدالقوی احمد یوسف نے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کہ کلبھوشن جادھو بھارتی شہری ہے، بھارت نے کلبھوشن کیلئے قونصلر رسائی مانگی ہے، پاکستان کا مؤقف ہے کہ کلبھوشن کیس میں ویانا کنونشن کا اطلاق نہیں ہوتا، پاکستان کا مؤقف ہے کہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی نہیں دی جا سکتی، پاکستان کلبھوشن جادھو کو قونصلر رسائی دے، پاکستان نے ویانا کنونشن میں طے شدہ قونصلر رسائی کے معاملات کا خیال نہیں رکھا۔

عالمی عدالت انصاف کے فیصلے میں کہا گیا کہ ویانا کنونشن جاسوسی کے الزام میں قید افراد کو قونصلر رسائی سے محروم نہیں کرتا۔

عالمی عدالت انصاف نے عالمی عدالت انصاف کے کیس کی سماعت کے حوالے سے دائرہ اختیار پر پاکستان کا اعتراض بھی مسترد کردیا۔

پاکستان کے ایڈہاک جج تصدق جیلانی کا اختلافی نوٹ

پاکستان کے ایڈہاک جج جسٹس تصدق جیلانی نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا۔

اختلافی نوٹ میں تصدق جیلانی نے مؤقف اپنایا کہ ویانا کنونشن جاسوسوں پر لاگو نہیں ہوتا۔

جسٹس تصدق جیلانی نے لکھا کہ ویانا کنونش لکھنے والوں نے جاسوسوں کو شامل کرنے سوچا بھی نہیں ہوگا، بھارتی درخواست قابلِ سماعت قرار نہیں دی جانی چاہیے تھی۔ بھارت مقدمے میں حقوق سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا مرتکب ہوا۔

کلبھوشن کی رہائی نہ ہونا پاکستان کی فتح ہے، اٹارنی جنرل پاکستان

فیصلے کے حوالے سے پاکستان کے اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا کہ عدالت نے واضح کہا ہے کہ کیس پر نظر ثانی کی جائے۔

انور منصور نے کہا کہ کلبھوشن کی رہائی نہ ہونا پاکستان کی فتح ہے، عالمی عدالت نے واضح طور پر کہا ہے کہ کلبھوشن رہا نہیں ہوگا۔

پاکستانی وقت کے مطابق کیس کا فیصلہ شام 6 بجے سنایا جانا تھا جس میں معمولی تاخیر ہوئی، فیصلہ سننے کیلئے پاکستان کی ٹیم اٹارنی جنرل کی قیادت میں دی ہیگ پہنچی تھی جو عالمی عدالت انصاف میں موجود رہی۔

ڈی جی سارک اور ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل بھی پاکستانی ٹیم میں شامل تھے۔ 

بھارت نے نیوی کمانڈر کلبھوشن جادھو کی بریت کی درخواست دائر کررکھی تھی جسے اب عالمی عدالت انصاف نے مسترد کردیا ہے۔

پاکستان اب اس کیس پر قانون کے مطابق آگے بڑھے گا، ترجمان دفتر خارجہ

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت نےکلبھوشن کو بری اور رہا کرنے کی بھارتی استدعا منظور نہیں کی، پاکستان ذمہ دار ملک کی طرح عالمی یقین دہانیوں سے شروع سے پیچھے نہیں ہٹا، پاکستان کے پاس بہت کم وقت تھا لیکن پاکستان اس مقدمے میں گیا۔

ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان اب اس کیس پر قانون کے مطابق آگے بڑھے گا، کمانڈر کلبھوشن جادھو بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے، کلبھوشن جادھو، حسین مبارک پٹیل کی جعلی دستاویز پر پاکستان آیا، حسین مبارک پٹیل کا پاسپورٹ بھارت نے جاری کیا جو  اصلی ہے۔

ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ کمانڈر کلبھوشن جادھو پاکستان میں جاسوسی میں ملوث تھا، کلبھوشن پاکستان کوغیر مستحکم اور متعدد دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث رہا، کلبھوشن کی دہشت گرد کارروائیوں سے سیکڑوں معصوم پاکستانی لقمہ اجل بنے، کلبھوشن نے اپنے کرتوتوں کا اعتراف جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے کیا، کلبھوشن جادھو بھارتی ریاستی دہشت گردی کی زندہ مثال ہے۔

خیال رہے کہ کلبھوشن کیس کی آخری سماعت 18 سے 21 فروری تک ہوئی تھی جس میں بھارت اور پاکستان کے وفود نے شرکت کی تھی۔

بھارتی وفد کی سربراہی جوائنٹ سیکرٹری دیپک متل نے کی تھی جب کہ پاکستانی وفد کی سربراہی اٹارنی جنرل انور منصور خان کر رہے تھے۔

عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن جادھو سے متعلق کیس کا فیصلہ 21 فروری کو محفوظ کیا تھا۔

کلبھوشن جادھو کیس— کب کیا ہوا؟

3 مارچ 2016 کو پاکستان نے ملک میں دہشتگردوں کے نیٹ ورک کیخلاف ایک اہم کامیابی حاصل کرنے کا اعلان کیا اور بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کو ایران کے سرحد ی علاقے ساروان سے پاکستانی صوبے بلوچستان کے علاقے مشاخیل میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا۔بھارتی جاسوس کے قبضے سے پاسپورٹ ، مختلف دستاویزات، نقشے اور حساس آلات برآمد ہو ئے۔

ابتدائی تفتیش میں بھارتی جاسوس نے اعتراف کیا کہ وہ انڈین نیوی میں حاضر سروس کمانڈر رینک کا افسر ہے اور 2013 سے خفیہ ایجنسی 'را' کیلئے کام کررہا ہے جبکہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کروانے، بلوچستان اور کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کرنا اس کا اہم مشن تھا۔

بھارتی جاسوس چابہار میں مسلم شناخت کے ساتھ بطور بزنس مین کام کررہا تھا اور 2003 ، 2004 میں کراچی بھی آیا جبکہ بلوچستان اور کراچی میں دہشتگردی کی کئی وارداتوں میں بھی اس کے نیٹ ورک کا ہاتھ تھا۔

24 مارچ 2016 کو پاکستان نے ابتدائی تحقیقات کے نتائج میڈیا کے سامنے رکھے، 25 مارچ 2016 کو پاکستان نے بھارتی سفیر کو طلب کر کے 'را' کے جاسوس کے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے اور کراچی ، بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے پر باضابطہ احتجاج کیا۔ اسی روز پاکستان نے P5 اور یورپی یونین کو بھی کلبھوشن جادھو کے معاملے پر بریف کیا۔

29 مارچ 2016 کو کلبھوشن جادھو کے اعترافی بیان کی ویڈیو جاری کی گئی، 8 اپریل 2016 کو ابتدائی ایف آئی آر سی ٹی ڈی کوئٹہ میں درج کی گئی جس کے بعد باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔

2 مئی 2016 سے 22 مئی 2016 تک بھارتی جاسوس سے تفتیش کی گئی جبکہ 12 جولائی 2016 کو جے آئی ٹی کی تشکیل ہوئی۔

22 جولائی 2016 کو کلبھوشن جادھو نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنا اعترافی بیان ریکارڈ کروایا۔ 6 ستمبر 2016 کو کلبھوشن کے مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان کی روشنی میں اس کی معاونت کرنے والے 15افراد کے خلاف سی ٹی ڈی کوئٹہ میں دوسری ایف آئی آر درج کی گئی۔

21 ستمبر 2016 کو کلبھوشن جادھو کیخلاف ملٹری کورٹ میں کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ 24 ستمبر کو شہادتیں ریکارڈ کی گئیں جس کے بعد تین سے زائد سماعتیں ہوئی جس میں چوتھی سماعت 12 فروری 2017 کوہوئی۔

23 جنوری 2017 کو پاکستان نے کلبھوشن کیس میں تحقیقات کیلئے بھارتی حکومت سے معاونت کی درخواست کی۔

21 مارچ 2017 کو پاکستان نے بھارت سے تحقیقات میں معاونت کا مؤقف ایک بار پھر دہرایا اور یہ واضح کیا کہ کلبھوشن جادھو تک کونسلر رسائی کیلئے معلومات کا تبادلہ ضروری ہے۔

10 اپریل 2017 کو ملٹری کورٹ نے کلبھوشن جادھو کے پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے جرم میں سزائے موت کا حکم دیا جس کی توثیق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی۔

بھارت کی جانب سے عالمی عدالت میں معاملہ لے جانے کے سبب کلبھوشن کی سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔

پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 25 دسمبر 2017 کو کلبھوشن جادھو کی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کرائی جب کہ اس ملاقات میں کلبھوشن نے والدہ اور اہلیہ کے سامنے جاسوسی کا اعتراف کیا۔

مزید خبریں :