28 جولائی ، 2019
اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں معاون خصوصی برائے قومی امور رہنے والے عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ پولیس نے مجھے گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالا اور دہشت گردوں جیسا سلوک کیا۔
عرفان صدیقی کا رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ رات ساڑھے 11 بجے کے قریب گھر کی گھنٹی بجی اور اس وقت میں کچھ لکھ رہا تھا تو باہر نکل کر دیکھا کہ پولیس نے گھر اور گلی کو گھیرا ہوا ہے، مجھے رات کو گھسیٹتے ہوئے گاڑی میں ڈالا اور گھر سے دہشت گردوں کی طرح لے جایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ رات کو تھانے میں بتایا گیا ایک گھر کے کرائے نامے کا مسئلہ ہے، میں نے بتایا کرائے پر دیا گیا گھر میرا نہیں بلکہ میرے بیٹے کا ہے اور وہ بیرون ملک ہوتا ہے۔
عرفان صدیقی کے مطابق مجھے گرفتار کرکے رات تھانے میں رکھا گیا اور اگلے دن دائیں ہاتھ میں ہتھکڑی لگا کر عدالت لایا گیا، خاتون جج سے کہا 65 سال کے دوران قلم کے سوا کچھ نہیں اٹھایا، اس کے باوجود جج نے ہتھکڑی نہیں کھلوائی۔
ان کا کہنا ہے کہ جیل میں قصوری چکی کے 8 بائی 8 کے سیل میں رکھا گیا، رات کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے ملاقات کی انہیں بتایا میں خوش ہوں لیکن مجھے بعد میں دوسری جگہ منتقل کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کوئی شکوہ نہیں کیا نہ کلاس بدلنے کو کہا، مجھ سے توہین آمیز رویہ رکھا گیا اور دوائیں بھی ساتھ نہیں لے جانے دی گئیں، قوم کو یہ کون سا نیا پاکستان دے رہے ہیں؟ یہ کہاں کی آزادی ہے کہ رات کو میرے گھر کا گیٹ توڑ دیا جاتا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ جواب دینا چاہیے میرے ساتھ یہ رویہ کیوں رکھا گیا؟ یہ مضحکہ خیز کیفیت ہے کہ آزادی اور آبرو دوسروں کے اشاروں سے جڑی ہوئی ہے، یہ کام کس کے دل کی تسکین کے لیے کیا گیا؟ یہ حکومت اس معاملے کی تحقیقات کا حق بھی نہیں رکھتی۔
قبل ازیں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور حکومت میں معاون خصوصی برائے قومی امور رہنے والے عرفان صدیقی کا اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ میں نے عدالت میں کہا کہ اس کیس سے میرا کیا تعلق ہے؟ صرف اتنا تعلق ہے کہ کرائے نامے میں میرا نام ولدیت میں لکھا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ اتوار کو میری رہائی کس کے کہنے پر ہوئی، یہ گھر 4 دن پہلے کرائے پر دیا گیا تھا، مجھے عدالت میں اس حالت میں پیش کرکے دنیا کو کیا پیغام دیا گیا۔
عرفان صدیقی نے مطالبہ کیا کہ اس واقعے کی انکوائری ہونی چاہیے اور اگر حکومت کو ذرا احساسِ ذمہ داری اور شرم ہے تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے، انسانیت کی بے حرمتی اور صحافت کی تذلیل پر کارروائی ہونی چاہیے، جن اہلکاروں نے یہ سب کیا ہے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
عرفان صدیقی کے مطابق اس حکومت کے خلاف ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، یہ اپنے لیے سب خود کررہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے وزیراعظم کے حکم پر عرفان صدیقی کو گرفتار کیا اور ماہر تعلیم کو عمران خان کے حکم پر ہتھکڑی لگائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو کوئی شرمندگی نہیں، ان کو فرق نہیں پڑتا، حکومت نے ایف آئی اے اور پولیس کو ذاتی ملازم بنا کر رکھا ہے، عمران خان آپ کی دھمکیوں اور اوچھے ہتھکنڈوں سے کوئی ڈرنے والا نہیں، عرفان صدیقی کے ہاتھ میں ہتھکڑی اور قلم کی تصویر تاریخ کا حصہ بن چکی ہے اور یہ تصویر عمران حکومت پر کالا دھبہ بن گئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ کرائے کے ترجمان کا کہنا کہ استاد کو ہتھکڑی لگ گئی تو کیا ہوا؟ یہ اخلاقی پستی ہے، یہ پاکستان تحریک انصاف نہیں بلکہ تاریک انصاف ہے، جس جمہوری حکومت میں انصاف ہو جمہوری اقدار کی پاسداری ہو وہاں یہ عمل نہیں ہوسکتا۔
یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور حکومت میں معاون خصوصی برائے قومی امور رہنے والے عرفان صدیقی کو جمعے کی رات اسلام آباد سے کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا تھا۔
گزشتہ روز مقامی مجسٹریٹ نے عرفان صدیقی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا تھا جہاں سے انہیں رہا کردیا گیا ہے۔