06 اگست ، 2019
نئی دہلی: بھارتی راجیہ سبھا (ایوان بالا) کے بعد لوک سبھا (ایوان زیریں) سے بھی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور 2 حصوں میں تقسیم کرنے والے بل منظور کرلیے گئے۔
بھارت نے گزشتہ روز راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا تھا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 ختم کرنے کا بل راجیہ سبھا میں پیش کیا تھا جس پر بل کے حق میں 125 جبکہ مخالفت میں 61 ووٹ آئے تھے۔
راجیہ سبھا سے منظوری کے بعد بھارتی وزیر د اخلہ امیت شاہ نے آرٹیکل 370 ختم کرنے اور مقبوضہ کشمیر کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا ’جموں و کشمیر کی تشکیل نو‘ کے نام سے بل لوک سبھا میں پیش کیا۔
خیال رہے کہ ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو لوک سبھا میں بھاری اکثریت حاصل ہے اور اس کے 303 ارکان ہیں جب کہ بی جے پی اور اتحادیوں کی مجموعی تعداد 357 ہے۔
لوک سبھا میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت والے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بل کے حق میں 351 اور مخالفت میں 72 ووٹ آئے جبکہ کشمیر کو وفاق کے زیر انتظام کرنے اور دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بل کے حق میں 370 اور مخالفت میں 70 ووٹ ڈالے گئے۔
لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے منظوری کے بعد یہ دونوں بل بھارتی صدر کو بھیجے جائیں گے جہاں ان کے دستخط کے بعد یہ باقاعدہ قانونی و آئینی صورت اختیار کرجائے گا۔
بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔
آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔
بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔
پاکستان نے بھارتی اقدام کو مسترد کرتے ہوئے عالمی فوجداری عدالت میں جانے کا عندیہ دیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارت کے صدارتی آرڈیننس کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جسے بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ بھارت کے یکطرفہ اقدامات سے کشمیر کی حثیت تبدیل نہیں کیا جا سکتی، بھارت کے ایسے اقدامات کشمیریوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان بھارت کے اس غیر قانونی اقدام کے خلاف تمام آپشنز بروئے کار لائے گا اور پاکستان کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (انٹرنیشنل کرمنل کورٹ) جانے کا اشارہ دیا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چوینگ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پرکشیدگی اور آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے متعلق سوالات پر تحریری جواب میں کہا کہ چین کو کشمیر کی موجودہ صورتحال پر 'شدید تشویش' ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ چین نے سرحدی علاقے میں بھارتی مداخلت کی ہمیشہ مخالفت کی ہے اور اس بارے میں ہمارا مؤقف واضح اور مستقل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے اپنا قانون یکطرفہ تبدیل کرکے ہماری خودمختاری کو نقصان پہنچایا، ایسے اقدامات ناقابل قبول اور کبھی قابل عمل نہیں ہوسکتے۔
ترجمان کے مطابق بھارت سرحدی معاملات پر بیان اور عمل میں ہوشمندی کا مظاہرہ کرے اور بھارت چین سے کیے گئے معاہدوں پر قائم رہے، بھارت ایسے کسی بھی عمل سے باز رہےجو سرحدی امور کو مزید مشکل بنادے۔