سرفراز کو سینٹرل کنڑیکٹ میں 'اے' کیٹگری کس بنیاد پر ملی ہے؟

— فائل فوٹو

پاکستان کرکٹ بورڈ نے 8 اگست کو سینٹرل کنٹریکٹ 20-2019ء کے لئے 19 کھلاڑیوں کو سینٹرل کنڑیکٹ دے کر ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ 

پی سی بی کے مطابق نیا سینٹرل کنڑیکٹ عجلت میں دینے کی باتیں بے بنیاد ہیں، یہ فیصلہ کرنا اس لئے ضروری تھا کہ جولائی میں شروع ہونے والا سینٹرل کنٹریکٹ ویسے ہی ایک ماہ تاخیر کا شکار ہو چکا تھا۔

البتہ دوسری جانب سلیکشن کمیٹی کے بغیر سینٹرل کنٹریکٹ کا سامنے آنا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ اگرچہ پی سی بی حکام کا کہنا ہے کہ نئی سلیکشن کمیٹی سینٹرل کنٹریکٹ کے ناموں میں اضافہ کر سکتی ہے، تاہم ڈائریکٹر انٹرنیشنل ذاکر خان ڈائریکٹر اکیڈمی مدثر نذر اور ڈائریکٹر ڈومیسٹک ہارون رشید اور سابق کوچ مکی آرتھر کی موجودگی میں بننے والے 20-2019ء کے سینٹرل کنٹریکٹ جس میں مینجنگ ڈائریکٹر وسیم خان کی مشاورت شامل ہے، کئی تحفظات سامنے آرہے ہیں ۔

سینٹرل کنٹریکٹ کی “ اے” کیٹگری میں یاسر شاہ کو شامل کرنے کی وجہ بتائی گئی کہ ایک سال میں انہوں نے 7 ٹیسٹ میں 38 وکٹیں حاصل کیں۔ 

یہ گذشتہ سال پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ میں بہترین بولنگ کارکردگی ہے، البتہ دوسری تلخ حقیقت یہ ہے کہ یاسر شاہ کی موجودگی میں قومی ٹیم 7 ٹیسٹ میں چار ٹیسٹ جیتی نہیں سکی۔ پھر 33سال کے یاسر شاہ ٹی 20میں قومی کے لئے منتخب ہوتے نہیں ، اور گذشتہ سال 8ون ڈے میں وہ محض چھ وکٹ لے سکے، جس کے لئے انہوں نے 384رنز دیے۔

اگر ان اعدادوشمار پر یاسر شاہ کو “ اے” کیٹگری مل سکتی ہے، تو سابق ٹیسٹ کپتان اظہر علی کو کس بنیاد پر “ بی” کیٹگری” میں رکھا گیا۔ 34سال کے اظہر علی جنھوں نے گذشتہ سال ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لی، انہوں نے گذشتہ سال 9 ٹیسٹ کی 17 اننگز میں ایک سینچری اور 3 نصف سینچریوں کے ساتھ 480رنز بنائے۔ اظہر علی موجودہ پاکستان ٹیم کے سب سے بڑے ٹیسٹ بیٹس مین ہیں۔ انہوں نے 73ٹیسٹ میں 43.27 کی اوسط سے 5669 رنز بنائے جن میں 15 سینچریاں شامل ہیں۔

ایک طرف سینٹرل کنڑیکٹ “اے” کیٹگری میں سابق کپتان اور تجربے کار بیٹسمین اظہر علی کو نظر انداز کیا گیا، دوسری جانب ٹیسٹ وکٹ کیپر اور کپتان سرفراز احمد کو یاسر شاہ کی طرح “ اے” کیٹگری دینے میں کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

32سال کے سرفراز احمد نے ورلڈ کپ کے 8 میچوں میں ایک نصف سینچری کی مدد سے 143 رنز بنائے، اور صرف 9 چوکے لگا سکے۔ لیکن گزشتہ سال 34 ون ڈے میں انہوں نے 631 رنز اور 7 ٹیسٹ میں 375 رنز بنائےجب کہ گذشتہ سال سرفراز احمد کے ساتھ قومی ٹیم کے ریزور وکٹ کیپر محمد رضوان نے 7ون ڈے کی چھ اننگز میں دو سینچریوں کے ساتھ 255رنز بنائے لیکن انھیں “ سی” کیٹگری میں رکھا گیا

سابق ٹیسٹ کپتان محمد حفیظ جنھوں نے ورلڈ کپ کے 8 میچوں میں ایک مین آف دا میچ کے ساتھ 253رنز بنائے اور پاکستان کے تیسرے کامیاب بیٹس مین رہے، کو سینٹرل کنڑیکٹ بناتے وقت شامل نہ کرنا سمجھ سے باہر ہے۔

یاد رہے کہ 38سال کے محمد حفیظ نے صرف ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لی ہے۔ محمد حفیظ جنھیں گذشتہ سال ایشیا کپ میں ڈراپ کیا گیا، انہوں نے 6 ٹی 20 میں 81 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ 243رنز اور 18ون ڈے میں 91 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ 507 رنز بنائے۔ اس کارکردگی کے باجود محمد حفیظ کیسے سینٹرل کنٹریکٹ میں شامل نہیں ہو سکتے ہیں؟

پی سی بی سینٹرل کنٹریکٹ “ اے” کیٹگری میں 30 سال کے حارث سہیل کیوں نہیں ہیں؟ حارث سہیل پاکستان کے لئے تینوں فارمیٹ کھیلتے ہیں۔ ورلڈ کپ کے پانچ مقابلوں میں جہاں حارث سہیل کھیلے، انہوں نے 2 نصف سینچریوں کے ساتھ 193رنز بنائے۔ گذشتہ سال حارث سہیل نے ون ڈے میں 2 سینچریاں بنائیں ، جب کہ گیارہ ٹیسٹ اننگز میں حارث سہیل نے 443رنز بھی بنا رکھے ہیں ۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق قومی ٹیم کو 9 ٹی 20، 6 ٹیسٹ اور تین ون ڈے میں شرکت کرنا ہے، تاہم سینٹرل کنٹریکٹ بنانے والی کمیٹی بظاہر ان سے ناواقف دکھائی دیتی ہے۔ سینٹرل کنٹریکٹ بنانے والی کمیٹی کے فیصلے ظاہر کر رہے ہیں کہ آنے والے مقابلوں کے لئے 19کھلاڑیوں سے علیحدہ کئی ناموں کو سلیکشن کے لئے زیر غور لایا جائیگا اور ایسا ہونے کی صورت میں یہ اس کمیٹی کی پہلی بڑی ناکامی ہوگی۔ 

اگرچہ ماضی میں بھی سینٹرل کنٹریکٹ سے علیحدہ کھلاڑی منتخب ہوئے ہیں، تاہم اس بار متعدد نام نظر انداز کیے گئے، جن کے انتخاب پر آنے والے دنوں میں ضرور غور کیا جائے گا۔

مزید خبریں :