دنیا
Time 17 ستمبر ، 2019

پیوٹن کا سعودیہ پر طنز، ایرانی اور ترک صدر کا رد عمل کیا تھا؟

پیوٹن پریس کانفرنس کے دوران قرآن کا بھی حوالہ دیتے رہے جبکہ ایرانی صدر حسن روحانی، ترک صدر طیب اردگان اور ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف مسکراتے رہے— فوٹو: فائل

سعودی آئل کمپنی آرامکو کی دو تنصیبات پر گزشتہ دنوں ہونے والے ڈرون حملوں کے باعث خطے میں کشیدگی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

ان حملوں کی ذمہ داری یمن میں حکومت اور عرب عکسری اتحاد کے خلاف برسرپیکار حوثی باغیوں نے قبول کی تاہم امریکی صدر نے ٹوئٹس میں اشارہ دیا کہ امریکا جانتا ہے کہ یہ حملے کس نے کیے لیکن وہ سعودی عرب کے جواب کا انتظار کررہا ہے کہ وہ کسے ذمہ دار سمجھتا ہے۔

اس کے بعد عرب عسکری اتحاد کے ترجمان کا بیان سامنے آگیا جس میں انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے یمن سے نہیں کہیں اور سے ہوئے اور اس میں ایرانی ہتھیار استعمال ہوئے۔

اب ایک امریکی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ حملے ایران سے ہوئے اور اس میں کروز میزائل استعمال کیے گئے۔

اس تمام تناظر میں ایران نے مؤقف اپنایا کہ اس کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں اور یہ یمن میں عرب عسکری اتحاد کی کارروائیوں کا ردعمل ہے۔

ایرانی صدر گزشتہ دونوں ترکی کے دورے پر تھے جہاں انقرہ میں ترکی، روس اور ایران کے درمیان سہ فریقی سربراہ اجلاس جاری تھا۔

سہ فریقی اجلاس کے موقع پر روسی صدر پیوٹن اور ایرانی صدر حسن روحانی کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں دونوں ملکوں کے تعلقات اور خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

سعودی تیل تنصیبات پر ہونے والے حملوں کے تناظر میں ایران، روس اور ترکی کے سربراہان مملکت کی ملاقات کو انتہائی اہمیت دی جارہی تھی۔


تینوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھی سعودی تیل تنصیبات پر حملے کا معاملہ زیر غور آیا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن جو اپنے حریفوں پر طنز کیلئے مشہور ہیں، انہوں نے اس معاملے کو امریکا اور سعودی عرب پر طنز کیلئے استعمال کیا۔

اطلاعات کے مطابق پریس کانفرنس کے دوران روسی صدر پیوٹن نے سعودی عرب کو روسی ساختہ میزائل ڈیفنس سسٹم فروخت کرنے کی پیشکش کی تاہم ان کا لہجہ طنزیہ تھا۔

پیوٹن نے کہا کہ 'ہم سعودی عرب کو اپنے لوگوں اور ملک کی حفاظت میں مدد دینے کے خواہاں ہیں، سعودیوں کو چاہیے کہ وہ دانشمندانہ فیصلہ کریں اور ایس 300 میزائل ڈیفنس سسٹم خریدیں جیسا کہ ایران نے خریدا یا پھر ایس 400 سسٹم خریدیں جیسا کہ ترکی نے خریدا'۔

پیوٹن نے سعودی آئل ریفائنریز پر حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ 'یہ قابل بھروسہ سسٹم سعودی تنصیابت کی حفاظت کریں گے'۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف — فوٹو: اسکرین گریب

پیوٹن اپنی پریس کانفرنس کے دوران قرآن کا بھی حوالہ دیتے رہے جبکہ اس موقع پر ایرانی صدر حسن روحانی، ترک صدر طیب اردگان اور ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف مسکراتے رہے۔

برابر میں بیٹھے ایرانی صدر حسن روحانی نے پیوٹن سے پوچھا کہ 'آپ سعودیوں کیلئے کونسا سسٹم پسند کریں گے ایس 300 یا ایس 400؟ جس پر پیوٹن نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ آپ انہیں ہی کرنے دیں'۔

فوٹو: اسکرین گریب

خیال رہے کہ امریکی دباؤ کے باوجود ایران اور ترکی نے روسی ساختہ میزائل ڈیفنس سسٹم خریدے، روس سعودی عرب کو بھی اپنا ڈیفنس سسٹم بیچنا چاہتا ہے لیکن اب تک اس میں کامیاب نہیں ہوا اور سعودی عرب اس وقت امریکی ہتھیاروں کا بڑا خریدار ہے۔

مزید خبریں :