18 ستمبر ، 2019
العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت آج (18 ستمبر) اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہو گی۔
نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی جانب سے وڈیو لیک کے بعد جاری وضاحتی پریس ریلیز اور بیان حلفی کو بھی اپیل کے ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے تھے کہ نوازشریف کی رہائی اور سزا کے خاتمے کیلئے ویڈیو فائدہ مند تب ہوگی جب کوئی درخواست دائر کی جائے گی۔
24 دسمبر 2018 کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 100 سے زائد سماعتوں کے بعد سات سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزاسنائی، سزا کے خلاف نوازشریف کی اپیل پرسماعت جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا دو رکنی بنچ کرے گا۔
خیال رہے کہ اس سے قبل یکم جنوری 2019 نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس میں فیصلہ کالعدم قرار دینے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو نیب نے بھی سزا بڑھانے کی اپیل دائر کردی۔
26 جنوری 2019 کو نواز شریف نے طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست دی جو خارج کردی گئی تاہم نواز شریف کو سپریم کورٹ سے عبوری ریلیف مل گیا اوران کی سزا 6 ہفتوں کیلئے طبی بنیادوں پر معطل کر دی گئی۔
چھ ہفتے گزرنے کے بعد ضمانت میں توسیع کی استدعا نامنظورہوئی اور نوازشریف کو دوبارہ جیل جانا پڑا۔
سابق وزیراعظم نے 20 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی ایک اور درخواست دائرکردی تاہم وہ بھی خارج کردی گئی۔
موسم گرما کی چھٹیوں کے باعث نواز شریف کی سزا کے خلاف مرکزی اپیل پر کارروائی 18 ستمبر تک ملتوی کی گئی، اسی دوران نواز شریف کو سزا دینے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے خلاف وڈیو اسکینڈل سامنے آیا۔
جج نے اپنی صفائی میں پہلے پریس ریلیز جاری کی اور پھر بیان حلفی ہائی کورٹ میں جمع کرایا جس کے بعد جج کو معطل کر کے خدمات لاہور ہائی کورٹ کو واپس کر دی گئیں اور معطل کیے گئے جج کے بیان حلفی کو نواز شریف کی اپیل کے ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔
سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017 کو سنائے گئے پاناما کیس کے فیصلے کے نتیجے میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دے دیا جبکہ عدالت عظمیٰ نے نیب کو شریف خاندان کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا۔
8 ستمبر 2017 کو نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز، فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور ایون فیلڈ ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے۔
احتساب عدالت ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ پہلے ہی سنا چکی ہے جس میں نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی جسے بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا تھا۔
دوسری جانب 19 اکتوبر2017 کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم عائد ہوئی جبکہ 20 اکتوبر2017 کو احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم عائد کی اور حسن نواز اور حسین نواز کو مفرور ملزمان قرار دیا گیا۔
24 دسمبر 2018 کو احستاب عدالت اسلام آباد نے وزیراعظم نواز شریف کو فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بری کرتے ہوئے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنادی جس کے بعد نیب نے سابق وزیراعظم کو گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا۔
احتساب عدالت نمبر ایک اور دو میں نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی مجموعی طور پر 183 سماعتیں ہوئیں، جن میں سے العزیزیہ ریفرنس میں 22 اور فلیگ شپ ریفرنس میں 16 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔
سابق وزیراعظم مجموعی طور پر 130 بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے، وہ 70 بار احتساب عدالت نمبر 1 کے جج محمد بشیر اور 60 بار احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک کے روبرو پیش ہوئے۔
احتساب عدالت نے مختلف اوقات میں نواز شریف کو 49 سماعتوں پر حاضری سے استثنیٰ دیا، جج محمد بشیر نے 29 جبکہ جج ارشد ملک نے نواز شریف کو 20 سماعتوں پر حاضری سے استثنیٰ دیا۔
احتساب عدالت نمبر ایک میں 70 میں سے 65 پیشیوں پر مریم نواز میاں نواز شریف کے ساتھ تھیں۔
ایون فیلڈ میں سزا کے بعد نواز شریف کو 15 بار اڈیالہ جیل سے لا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔
نیب کا الزام تھا کہ نواز شریف نے وزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ کے دور میں اپنے بیٹوں حسن اور حسین نواز کے نام پر بے نامی جائیدادیں بنائیں جبکہ اس دوران ان کے بچے زیر کفالت تھے۔
دوسری جانب شریف خاندان نے مؤقف اپنایا تھا کہ العزیزیہ اسٹیل ملز قطری سرمایہ کاری سے خریدی گئی اور حسن نواز کو کاروبار کے لیے سرمایہ بھی قطری نے فراہم کیا، جس کی بنیاد پر فلیگ شپ کمپنی بنائی گئی۔
شریف خاندان کے مطابق تمام جائیدادیں بچوں کے نام ہیں اور نواز شریف کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔
فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ یہ ریفرنس مخالفین اور جے آئی ٹی کی جانبدار رپورٹ پر بنایا گیا اور استغاثہ ان کے خلاف ثبوت لانے میں ناکام ہوگیا۔