02 اکتوبر ، 2019
پنجاب کے شہر قصور کے مختلف علاقوں میں بچوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات سامنے آرہے ہیں جس کے لیے پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ اس پر ریسرچ کی ضرورت ہے۔
گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے قصور کی تحصیل چونیاں میں بچوں کے اغواء کے واقعات میں ملوث ملزم کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا جس کے بعد پولیس نے ملزم سہیل شہزاد کو گرفتار کرنے کی تصدیق کر دی تھی۔
اس حوالے سے ایڈیشنل آئی جی پنجاب انعام غنی کا کہنا ہے کہ بچوں عمران، سلمان، علی حسنین کا ملزم پکڑنے سے پنجاب پولیس سرخرو ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ فیضان کی لاش ملنے کے وقت شواہد ملے تھے کہ بچوں کا تعلق ایک ہی علاقے سے تھا اس لیے ہمیں لگا کہ ملزم یہیں کا ہو سکتا ہے۔
قصور میں بڑھتے زیادتی کے واقعات پر اے آئی جی پنجاب نے مزید بتایا کہ ہم نے 3000 مشتبہ افراد سے تفتیش کی تاہم یہ واقعات قصور میں کیوں ہوتے ہیں اس پر ریسرچ کی ضرورت ہے۔
پولیس کے مطابق ملزم سہیل شہزاد کو آج انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
یاد رہے کہ قصور کی تحصیل چونیاں میں ڈھائی ماہ کے دوران 4 بچوں کو اغواء کیا گیا جن میں فیضان، علی حسنین، سلمان اور 12 سالہ عمران شامل ہیں، ان تینوں کی لاشیں جھاڑیوں سے ملی تھیں جب کہ بچوں سے زیادتی کی بھی تصدیق ہوئی تھی۔
اس واقعے کے بعد چونیاں شہر میں عوام کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اور تھانے پر حملہ کیا گیا جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بچوں کے اغواء، زیادتی اور پھر قتل کے واقعے کی تحقیقات کے لیے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) کی سربراہی میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی ) تشکیل دی تھی۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی چونیاں میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات کا حکم دیا تھا۔