بلاگ
Time 05 اکتوبر ، 2019

'شناختی کارڈ نہیں دیتے، پوچھتے ہیں تم ہندو تھے سِکھ کیوں بنے؟'

روی شنگر

شکار پور سے تعلق رکھنے والے روی سنگھ چٹے ان پڑھ ہیں اور گلی گلی پھیری لگا کر دنداسہ بیچتے ہیں۔ روی پچھلے تین سال سے قومی شناختی کارڈکے لیے نادرا دفتر کے چکر لگا رہے ہیں۔ 

قومی شناختی کارڈ ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے لیکن اکثر پاکستانیوں کو شناختی کارڈ کے حصول میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ اس کی اہم وجوہات میں کم علمی، معلومات تک رسائی کا نہ ہونا، درکار دستاویزات کی کمی اور پیچیدہ طریقہ کار شامل ہیں۔

روی سنگھ کی شناختی کارڈ کے لیے درخواست دو بار مسترد کی جا چکی ہے اور تیسری بار انہیں نئے سرے سے درخواست جمع کرانے کا کہا گیا ہے۔

چوبیس سالہ روی اس بارے میں بتاتے ہیں کہ "میں کراچی میں رہتا ہوں لیکن تعلق شکارپور کے محلے بروہی پاڑے سے ہے۔ مجھے شناختی کارڈ کے لیے بار بار شکار پور جانا پڑتا ہے ۔ میرے بھائیوں اور ان کے بیٹوں کے شناختی کارڈ بن چکے ہیں مگر میرا نہیں بنتا۔ میں اپنے خاندان کا واحد فرد ہوں، جس کو نادرا شناختی کارڈ جاری نہیں کرتا اور ہر بار کچھ نہ کچھ مشکل آجاتی ہے۔

— فوٹو راوی

میں نے 2017میں پہلی بار شناختی کارڈ بنوایا [ فارم بھرا]۔ انھوں نے کہا کہ ڈیڑھ مہینے کے بعد آؤ، میں پھر یہاں [کراچی ]سے گیا ۔ لیکن ان [نادرا] کا کہنا ہے کہ کارڈ میں مسئلہ ہے۔پیر والے دن آؤ، بڑے افسر آپ کا مسئلہ حل کریں گے ، میں ایک ہفتہ شکار پور میں رہا ، جو جو چیزیں مانگیں وہ دیں لیکن کارڈ نہیں بنا۔ ماں باپ کے شناختی کارڈ بھی دیے اور ایک بار ماں کو اور ایک بار بڑے بھائی کو بھی لے کر گیا لیکن بس ایک ہی بات کہ کارڈ میں مسئلہ ہے۔

اس سال مارچ میں ایک بار پھر نادرا [شکار پور] کے آفس گیا۔ اس بار 750فیس بھی بھری کہ شایدفری میں نہیں بنتا ہو۔ لیکن پھر ،وہ ہی بات کہ کارڈ میں مسئلہ ہے لیکن مسئلہ کیا ہے یہ کوئی نہیں بتاتا۔ اس بار یہاں تک کہا کہ اب تمہارا کارڈ کبھی بھی نہیں بن سکتا۔ وہ مجھ سے پوچھتےہیں کہ تم ہندو تھے ، سکھ کیوں بنے؟ انہیں یقین ہے کہ میں غلط آدمی ہوں ، اسی لیے کارڈ نہیں دیتے۔ ہم چانگ برادری سے ہیں اور دس سال پہلے ہندو مذہب سے سکھ مذہب میں آئے۔"

دھاڑی دار بندہ ہوں اور شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ پولیس بھی روکتی ہے، روی سنگھ

روی کا کہنا ہے کہ وہ شکار پور میں وڈیروں کے کھیتوں میں کھیتی باڑی کرتے تھے مگر جب فصل خراب ہو جائے تو انہیں بھی نقصان ہوتا ہے اسی لیے کراچی آئے کہ دھاڑی لگا کر کچھ کما لیں۔

— روی سنگھ کی جھُگی

روی کراچی میں ایک جھُگی میں رہتے ہیں اور تین سال قبل ان کی شادی ہو چکی ہے اور اب ان کے دو بچے بھی ہیں۔

شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ "بغیر کارڈ کے نہ کوئی نوکری ملتی ہے اور نہ ہی دیگر سہولیات۔ ہم روز کی دھاڑی لگاتے ہیں جب کہ جگہ جگہ پولیس بھی روکتی ہے۔ اس لیے میں باپ بھائی کے کاغذات اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔ ابھی بیوی بچوں کے بھی کارڈ بنوانے ہیں لیکن پہلے میرا تو بنے۔"

ایڈووکیٹ طاہرہ حسن، امکان کی ڈائریکٹر ہیں اور شناخت کے بحران میں مبتلا لوگوں کو مدد فراہم کرتی ہیں۔ روی سنگھ کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ "بظاہر روی کی درخواست میں کوئی کمی نظر نہیں آتی ۔ جب ان کے والدین اور بہن بھائیوں کے شناختی کارڈ جاری کر دیئے گئے، تو ان کی درخواست رد کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آتی ؟ اگر کوئی وجہ تھی تو بتائی جاتی اس لیے بظاہر اس کی وجہ نادرا کی لاپرواہی ،غفلت اور کمزور نظام ہے"۔

روی کی درخواست نامکمل معلومات اور ناکافی دستاویزات کی وجہ سے منسوخ کی گئی، نادرا ترجمان

یاد رہے کے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے حکومت سبنھالنے کے بعد پاکستان میں دہائیوں سے بسنے والے پناہ گزینوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا لیکن سیاسی جماعتوں کی مخالفت کے باعث یہ معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔ 

مگر اس کے کچھ عرصے بعد وزارت داخلہ نے نادرا سے کہا تھا کہ "27825 روکی گئی درخواستوں کی جانچ پڑتال نئے سرے سے کی جائے اور اگر درخواست گزار کے والدین کا ریکارڈ نادرا کے ڈیٹا بیس میں موجود ہے اور ان کے کارڈ بلاک نہیں کیے گئے تو انہیں شناختی کارڈ جاری کر دیا جائے"۔

روی سنگھ کو جب بلایا گیا وہ پیش نہیں ہوا: نادرا ترجمان

— فوٹو راوی

نادر اکے ترجمان فائق علی روی سنگھ کے کیس کے حوالے سے کہتے ہیں کہ "روی سنگھ کو جب بلایا گیا تو وہ اس دن پیش نہیں ہو سکے اس لیے ان کی درخواست کو نامکمل درخواست اور غیر حاضری کی وجہ سے مسترد کیا گیا ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی کم علمی کا شکار ہوئے ہوں اور پوری بات درست انداز میں سمجھ نہ سکے ہوں ۔"

نادرا ترجمان کے مطابق نادرا اگر کسی کی درخواست مسترد کرتا ہے تو اس کی چند بنیادی وجوہات ہوتی ہیں جن میں سب سے بڑی نامکمل اور غلط معلومات مہیا کرنا ہے جب کہ کبھی کبھی نامکمل دستاویز اس کی اہم وجہ بنتی ہے۔

فائق علی کے مطابق روی کے مسئلے میں بھی یہ ہی سمجھ آرہا ہے کہ ان کی درخواست نا مکمل معلومات اور ناکافی دستاویزات کی وجہ سے منسوخ کی گئی اور جب انہیں کاغذات کے ساتھ بلایا گیا تو بر وقت پیش نہیں ہو ئے۔

تاہم نادرا ترجمان نے روی سنگھ کی درخواست مذہبی بنیادوں پر مسترد کیے جانے کی نفی کی اور کہا کہ نادرا شناختی کارڈ کی درخواستوں کو مذہب کی بنیاد پر نہیں جانچتا۔ "ہر اٹھارہ سالہ پاکستانی شہری اپنا قومی شناختی کارڈ مفت حاصل کر سکتا ہے۔ اس میں رنگ نسل ، مذہب اور علاقے کی کوئی قید نہیں۔ روی سنگھ مکمل معلومات کے ساتھ دوبارہ اپنی درخواست جمع کرائیں تو ان کی درخواست خارج نہیں کی جائے گی۔ "

فائق علی کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان  اور بنگلادیش کے شہریوں کی درخواستیں یقیناً مسترد کی جاتی ہیں کیونکہ وہ پاکستانی شہری نہیں ہیں مگر ان قومیتوں کو "نارا"The National Alien Registration Authority (NARA( کی شرائط پر دیکھا جاتا ہے۔

اگر نادرا قومی شناختی کارڈ جاری کرنے سے انکار کر دے تو کیا کریں؟

اس بارے میں وکیل ضیاء اعوان کہتے ہیں کہ سب سے پہلے نادرا کے شکایتی دفتر سے رجوع کرنا چاہیے اور اگر وہاں سے اس کی شکایت دور نہیں ہوتی تو وہ صوبائی محتسب کو درخواست دے جو اس کی درخواست پر نظر ثانی کرے گا اور اگر کسی کی یہاں سے بھی شکایت دور نہیں ہو تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا ہے۔

روی سنگھ کی کہانی صرف ایک شخص کی کہانی نہیں بلکہ کئی پاکستانی ایسی ہی مشکلات کا اظہار کرتے ہیں۔ کتنے ہی روی سنگھ ہوں گے جو نادراکے دفتری ماحول اور اسٹاف کے عدم تعاون کی وجہ سے پریشانی اٹھاتے ہیں اور ان مشکلات کی وجہ اپنا "غیر مسلم" ہونا سمجھتے ہیں۔

اس لیے نادراکے دفاتر میں بنائے گئے معلوماتی مراکز کو فعال اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ ہمارے ملک کا ایک اہم مسئلہ تعلیم کی کمی ہے۔ لہٰذا نادرا کو چاہیے کہ "روی سنگھ" جیسے ان پڑھ افراد کو درست معلومات پہنچانے اور سمجھانے کے لیے عملے کو تربیت فراہم کرے۔

کیونکہ نادرا سے شکایات صرف روی سنگھ کو ہی نہیں بلکہ سیکڑوں دیگر افراد کو بھی ہیں جن کے تدارک کی ضرورت ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔