10 اکتوبر ، 2019
شامی کرد باغیوں کیخلاف ترکی کے فوجی آپریشن کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں رکن ممالک نے ترکی سے شام میں جاری آپریشن روکنے کا مطالبہ کر دیا۔
اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی شام میں ترکی کے آپریشن پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
شام میں ترک فوجی کارروائی کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرہ ہنگامی اجلاس ہو۔
اجلاس فرانس، جرمنی، برطانیہ، بیلجیئم اور پولینڈ کی درخواست پر طلب کیا گیا تھا۔
اجلاس کے بعد سلامتی کونسل کے یورپی رکن ممالک فرانس، جرمنی، برطانیہ، بیلجیئم اور پولینڈ کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں شمالی شام میں ترک فورسز کے آپریشن پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور ترکی سے یکطرفہ آپریشن روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اجلاس میں امریکی سفیر برائے اقوام متحدہ کیلی کرافٹ نے ترکی کے آپریشن کی مذمت کی اور کہا ہے امریکا نے شام میں ترک کارروائی کی کسی بھی طرح حمایت نہیں کی۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ شام کے تنازع کا حل شام کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرنے میں ہے۔
خیال رہے کہ ترکی نے 9 اکتوبر سے شام میں کُرد ملیشیا کے خلاف زمینی اور فضائی کارروائیاں شروع کیں، ترک افواج کی بمباری کے دوران اب تک شامی کُرد ملیشیا کے 16 ارکان کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ ترکی کا دعویٰ ہے کہ اس نے 174 دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے۔
واضح رہے کہ ترکی اپنی سرحد سے متصل شام کے شمالی علاقے کو محفوظ بنا کر ترکی میں موجود کم و بیش 20 لاکھ شامی مہاجرین کو وہاں ٹہرانا چاہتا ہے۔
اس علاقے میں موجود شامی کرد ملیشیا (وائے پی جی) ’جسے امریکی حمایت بھی حاصل رہی ہے‘ کو انقرہ دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے اور اسے ترکی کے علیحدگی پسند اسیر کرد رہنما عبداللہ اوجلان کی سیاسی جماعت کردش ورکر ز پارٹی کا عسکری ونگ قرار دیتا ہے۔
ترک صدر نے یورپی یونین کو خبردار کیا کہ اگر یورپی ممالک نے شام میں ترک کارروائی کو حملہ قرار دیا تو وہ اپنے ملک میں موجود 36 لاکھ شامی مہاجرین کو یورپ بھیج دیں گے۔