12 اکتوبر ، 2019
ترکی کی جانب سے شامی کرد ملیشیا کے خلاف کارروائی چوتھے روز بھی جاری ہے اور ترک فوج نے سرحد کے قریب اہم شامی قصبے پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔
ترک وزارت دفاع کے مطابق شام میں کرد ملیشیا کے خلاف آپریشن بہارِ امن( پیس اسپرنگ) کامیابی سے جاری ہے اور اس کی فوج نے اہم سرحدی قصبے راس العین کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
ادھر کردوں کی سربراہی میں لڑنے والے سیریئن ڈیموکریٹک فورس (ایس ڈی ایف) کا کہنا ہے کہ ترک افواج کی کئی گھنٹوں سے جاری رہنے والی بھاری شیلنگ کے باعث ایک حکمت عملی کے تحت وہ پیچھے ہٹے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق گزشتہ رات ہونی والی جھڑپوں میں ایس ڈی ایف کے 20 جنگجو ہلاک ہوئے ہیں جب کہ چار روز کے دوران یہ تعداد 74 ہوگئی ہے۔
اس سے قبل تک خبر رساں ادارے نے 300 سے زائد کرد جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔
ترک وزارت دفاع کی جانب سے لڑائی میں ایس ڈی ایف کے 400 سے زیادہ جنگجوؤں کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق چار روز کے دوران 28 عام شہری بھی ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ 2 لاکھ کے قریب افراد محفوظ مقام پر نقل مکانی پر مجبور ہیں۔
دوسری جانب شامی کرد باغیوں کے ترکی پر راکٹ حملے میں 10 ترک شہری ہلاک اور 35 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔
شام میں موجود امریکی افواج کے حکام کا کہنا ہے کہ شامی کرد علاقے کو بانی میں ایک امریکی چوکی کے قریب دھماکا سنا گیا تاہم اس میں امریکی فوج کا کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا۔
اس حوالے سے ترک وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس کا ہدف امریکی چیک پوسٹ نہیں تھی اور اس بات کا پورا خیال رکھا جارہا ہے کہ حملوں کے دوران ہدف غلط نہ ہوجائے۔
ترک حکام کے مطابق امریکا کی جانب سے اعتراض کے بعد اس علاقے میں فائرنگ کا سلسلہ روک دیا گیا ہے۔
روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے شام میں موجود تمام غیر ملکی افواج سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر شامی سرزمین سے غیر قانونی قبضہ ختم کرکے وہاں سے نکل جائیں۔
عرب میڈیا سے گفتگو میں روسی صدر کا کہنا تھا کہ اگر شامی حکومت فیصلہ کرلے تو روس کی فوج بھی شام سے نکل جائے گی۔
جرمنی نے شام کے شمالی علاقوں میں عسکری کارروائی کے ردعمل میں ترکی پر اسلحے کی فروخت پر پابندی عائد کردی ہے۔
جرمن وزیر خارجہ کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ اسلحہ ترکی کی جانب سے شام میں کارروائی کے دوران استعمال ہوسکتا ہے اس لیے جرمن حکومت ترکی کو اسلحے کی فروخت کیلئے نئے اجازت نامے جاری نہیں کرے گی۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ترکی اور شامی کردوں کے درمیان ثالثی کرانے کی پیشکش کی ہے۔
جواد ظریف نے ترک ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایران ترکی، شامی حکومت اور شامی کردوں کے درمیان مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے ممکن ہے۔
انہوں نے 21 سال قبل سابق شامی صدر حافظ الاسد اور سابق ترک صدر سلیمان دیمرل کے درمیان ہونے والے معاہدہ آداناکو مسئلے کے حل کا راستہ قراردیا۔
اس معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ شامی حکومت ترکی میں برسرپیکار علیحدگی پسند گروہ کردستان ورکرز پارٹی کو شام میں پناہ گاہیں بنانے سے روکے گی تاہم ترکی کا کہنا ہے کہ اس معاہدے پر کبھی بھی عمل نہیں ہوا۔
ترک صدر طیب اردوان نے ایک بار پھر آپریشن روکنے کیلئے عالمی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دباؤ کے باوجود شمالی شام میں آپریشن نہیں روکیں گے، مخصوص لوگ جوبھی کہیں ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
ایک تقریب سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ آپریشن ہمارے کُرد بھائیوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ہے۔
واضح رہے کہ ترکی کی جانب سے شام کے شمالی علاقے میں فوجی آپریشن کیا جارہا ہے جس کا مقصد وہاں سے شامی کرد ملیشیا کو پیچھے دھکیل کر اپنی سرحد کو محفوظ بنانا ہے۔
ترکی اپنی سرحد سے متصل شامی علاقے کو محفوظ بنا کر ترکی میں موجود کم و بیش 20 لاکھ شامی مہاجرین کو بھی وہاں ٹہرانا چاہتا ہے۔
اس علاقے میں موجود شامی کرد ملیشیا (وائے پی جی) ’جسے امریکی حمایت بھی حاصل رہی ہے‘ کو انقرہ دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے اور اسے ترکی کے علیحدگی پسند اسیر کرد رہنما عبداللہ اوجلان کی سیاسی جماعت کردش ورکر ز پارٹی کا عسکری ونگ قرار دیتا ہے۔