13 اکتوبر ، 2019
وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ایک بار پھر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان کے بعد ملک میں سیاسی گرما گرمی بڑھ گئی ہے۔
وفاقی و صوبائی وزراء کی جانب سے جے یو آئی (ف) اور مولانا فضل الرحمان پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔
اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا نہ اسلام سے کوئی لینا دینا ہے، نہ جمہوریت سے بلکہ وہ صرف حلوے کی پلیٹ کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج جیلوں میں موجود کچھ لوگ بہت بے چین ہیں، وزیراعظم عمران خان کا وعدہ تھا کہ وہ لٹیروں کو اصل جگہ پہنچائیں گے، ان میں کچھ لوگ پہنچ چکے ہیں اور باقی جیلوں کے راستے میں ہیں۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان حکومت کے خلاف بے بنیاد مہم چلانا چاہتے ہیں، اگر ہماری حکومت گئی تو کیا مولانا وزیر اعظم بن سکیں گے؟
انہوں نے خبردار کیا کہ مولانا کے غیر قانونی اقدام کے خلاف ایکشن ہوگا، احتجاج کرنے کا حق ہے لیکن حتجاج کے نام پر خون خرابے اور ڈنڈا بردار لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمان سمیت کئی بڑے ناموں کو شکست ہوئی جس کے فوراً بعد جے یو آئی ف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی و دیگر جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی اور انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا۔
19 اگست 2019 کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) اسلام آباد میں ہوئی جس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کمر کے درد اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پارٹی دورے کے باعث اے پی سی میں شریک نہیں ہوئے۔
اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں ملک کو مختلف بحرانوں سے دوچار کردیا گیا ہے، اس وقت پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہے اور حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے نتیجے میں ملک کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاشی صورتحال انتہائی ابتر ہے، معاشی بدحالی سے روس ٹکرے ہوگیا اور ہمیں ایسے ہی حالات کا سامنا ہے، ملک میں قومی یکجہتی کا فقدان ہے، ملک کا ہر طبقہ پریشانی میں مبتلا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کل تک ہم سوچ رہے تھے، سری نگر کیسے حاصل کرنا ہے؟ آج ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ مظفر آباد کیسے بچانا ہے؟ عمران کہتا تھا مودی جیتے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا، موجودہ حکمران کشمیر فروش ہیں اور ان لوگوں نے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔
سربراہ جے یو آئی نے الزام عائد کیا کہ ہم عالمی سازش کا شکار ہیں اور ہمارے حکمران اس کا حصہ ہیں، جب تک میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا تو کشمیر کو کوئی نہیں بیچ سکا لیکن میرے جانے کے بعد کشمیر کا سودا کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں اتفاق کیا ہے کہ سب اکٹھے اسلام آباد آئیں گے اور رہبر کمیٹی ایک ہفتے میں چارٹر آف ڈیمانڈ دے گی تاکہ جب اسلام آباد کی طرف آئیں گے تو ہمارے پاس متفقہ چارٹر آف ڈیمانڈ ہو۔
فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہمارے لاک ڈاؤن میں عوام آئیں گے، انہیں کوئی نہیں اٹھا سکتا، ہمارے لوگ عیاشی کیلئے نہیں آئیں گے اور ہر سختی برداشت کرلیں گے۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے کھل کر مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا تاہم دونوں جماعتیں مولانا کی اخلاقی حمایت کررہی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کہہ چکے ہیں کہ ان کی جماعت دھرنے کی سیاست اور اسلام کے نام پر سیاست کرنے کے خلاف ہے تاہم اگر کچھ تحفظات دور ہوجائیں تو ان کی پارٹی مولانا کے دھرنے میں شامل ہوسکتی ہے۔
تاہم 8 اکتوبر کو اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کے اجلاس میں تمام اپوزیشن جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کے 27 اکتوبر کے آزادی مارچ میں بھر پور شرکت کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس کے بعد 11 اکتوبر کو لاہور کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے بھی مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔