22 اکتوبر ، 2019
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 8 نئے قوانین کو آرڈیننس کے ذریعے نافذ کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
اجلاس میں ملکی معاشی صورتحال اور دیگر امور پر غور کیا گیا اور اہم فیصلے بھی کیے۔
ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے 6 نئے آرڈیننس کی منظوری بھی دی جس میں قومی احتساب بیورو (نیب) قوانین میں ترمیم اور خواتین بل شامل ہیں۔ اجلاس میں سستے گھروں کیلئے 5 ارب روپے کی منظوری بھی دی گئی۔
تمام وزارتوں کوعام آدمی کی زندگی میں بہتری کیلئے اقدامات کی ہدایت
کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ کابینہ اجلاس میں مختلف وزارتوں نے عوام کی فلاح کیلئے شروع کیے گئے منصوبوں پر بریفنگ دی۔
انہوں نے کہا کہ تمام وزارتوں کوعام آدمی کی زندگی میں بہتری کیلئے اقدامات کی ہدایت کی گئی ہے کیوں کہ ان اقدامات کا مقصد حکومتی اداروں کے ذریعے لوگوں کی زندگی میں آسانی پیدا کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کرتار پور راہدی کا افتتاح 9 نومبرکو کریں گے، کابینہ نے کرتارپور راہداری کے حوالے سے معاہدے کی منظوری دی ہے ۔
فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ مہنگائی پرکنٹرول کیلئے اسلام آباد میں پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا ہے، منڈیوں میں مڈل مین کے خاتمے کیلئے اقدامات سے اجلاس کے شرکاء کو آگاہ کیا گیا جبکہ سستے گھروں کی تعمیر کیلئے 5 ارب روپے کے بلاسود قرضے کی منظوری دی گئی۔
سول پروسیجر کوڈ میں ترمیم کی منظوری دی گئی ہے،فروغ نسیم
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اجلاس کے بعد بتایا کہ آج عام آدمی کی زندگی میں آسانی لانے کے 8 قوانین کی منظوری دی گئی ہے۔
فروغ نسیم نے بتایا کہ مجموعہ ضابطہ دیوانی (سول پروسیجر کوڈ - سی پی سی) میں ترمیم کی منظوری دی گئی ہے، سول پروسیجر کوڈ انگریز کا فرسودہ نظام ہے، اب دیوانی مقدمات کو بیک وقت دو بینچز میں سنا جائے گا، ایک عدالت سے اگر حکم امتناعی ہوجائے تو دوسرا بینچ کیس سنتا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کا استعمال نظامِ انصاف میں کیا جائے، ہم نے جج کے اسپاٹ انسپیکشن کیلئے بھی قانون میں ترمیم کی ہے، کسی کی رپورٹ کے بجائے جج خود جا کر اسپاٹ دیکھے گا تو شفافیت یقینی ہوگی۔
وزیر قانون نے بتایا کہ دوسری اپیل کے حق کو ختم کیا گیا ہے، دوسری اپیل کم کرنے سے عدالت کا تین سے پانچ سال کا عرصہ بچ جائے گا، اس کے علاوہ وکلاء، گواہان کے بیانات کیلئے ٹائم لائنز مقرر کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر جج زیادہ ہوں گے تو عام آدمی کا فائدہ ہوگا، لیکن سینیٹ میں اپوزیشن نے اچانک ججز تقرری بل کی مخالفت کر دی، ججز تقرری بل کی مخالفت پاکستان دشمنی نہیں ہے؟
وزیر قانون نے کہا کہ اپوزیشن ایسی چیزوں پر بھی سیاست کرتی ہے جن کا سیاست سے تعلق نہیں، آرڈینینس کی میعاد ختم ہونے میں 8 مہینے موجود ہیں اور امید ہے کہ 2021 میں ہم سینیٹ الیکشن جیت کر اپوزیشن کی بلیک میلنگ سے بچ جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ خواتین کا وراثت میں حق یقینی بنانے کا آرڈیننس منظور ہوا ہے، وراثتی سرٹیفیکیٹ 15 سے 20 روز میں نادرا جاری کردے گا۔
وفاقی وزیر قانون و انصاف ڈاکٹر فروغ نسیم نے رانا ثناءاللہ کے کیس کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ایک اچھی شہرت کے حامل جج کو انسداد منشیات عدالت کیلئے نامزد کیا لیکن بعد ازاں رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے بتایا گیا کہ مذکورہ جج نے صحت کی وجہ سے چارج نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، دوسرے جج کی نامزدگی چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے بھجوا دی ہے، وہ عمل ابھی جاری ہے۔
5 کروڑ سے زائد کرپشن کے کیس میں جیل میں سی کلاس دی جائے گی، وزیر قانون
انہوں نے کہا کہ حکومت نے عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے اور تیز رفتار انصاف کیلئے مختلف آرڈیننس جاری کیے ہیں اس میں ایک آرڈیننس یہ بھی ہے کہ جس شخص کے خلاف پانچ کروڑ سے زائد کرپشن کا کیس ہو گا اسے جیل میں سی کلاس دی جائے گی، یہ آرڈیننس فوری طور پر نافذ العمل ہو گا، جو مقدمات چل رہے ہیں یا زیر سماعت ہیں یا نئے داخل ہونے والے ہیں ان سب پر یہ لاگو ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ انصاف کی فراہمی کیلئے لیگل اینڈ جسٹس اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے۔ عنقریب نادرا کو اپنا ڈیٹا شماریات سمیت دیگر اداروں کے ساتھ لنک کرنا ہو گا جس سے ڈومیسائل کی ضرورت اور جرائم پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ شفافیت بھی آئے گی۔
ایک سوال کے جواب میں فروغ نسیم نے کہا کہ نیب اصلاحات ختم نہیں ہوئیں بلکہ ان پر اسی طرح بھرپور انداز میں کام جاری ہے، جلد نیب اصلاحات سامنے لائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ نیب کے حوالے سے ایک کمیٹی بھی بنائی گئی ہے جو کاروباری شخصیات پر کیسز کو دیکھے گی۔
فروغ نسیم نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی تعداد 6 سے بڑھا کر 9 کرنے کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس ہائیکورٹ سے بھی مشاورت کی، سب نے اس کوشش کو سراہا لیکن جب یہ معاملہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف سے منظوری کے بعد سینیٹ میں گیا تو اپوزیشن ممبران کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث یہ قانون سازی مسترد کر دی گئی، اپوزیشن کی جانب سے یہ قدم نا مناسب ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 8 آرڈیننس کی مدت مکمل ہونے کے بعد انہیں پارلیمنٹ لانا ہوگا، اگر پارلیمنٹ میں اپوزیشن ایسا ہی رویہ رکھے گی تو ایک مرتبہ پھر اپوزیشن عوام کے سامنے بے نقاب ہو گی۔