23 اکتوبر ، 2019
روس اور ترکی نے شامی کرد ملیشیا کو ’سیف زون‘ سے نکلنے کیلئے مزید 150 گھنٹے کی مہلت دے دی۔
ترک صدر طیب اردوان ، روسی صدر ولادی میرپیوٹن کی دعوت پر روس پہنچے جہاں انہوں نے سوچی شہر میں پیوٹن سے 6 گھنٹے طویل ملاقات کی۔
دونوں سربراہان مملکت کے درمیان طویل ترین ملاقات ہوئی جس میں خطے کی صورتحال خصوصاً شمالی شام کے علاقے میں جاری ترکی کے فوجی آپریشن پر تبادلہ خیال ہوا۔
ملاقات کے بعد ترک صدر اردوان اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے مشترکہ پریس کانفرنس کی، اس دوران ترک صدر اردوان کا کہنا تھا کہ کرد ملیشیا 150 گھنٹوں میں اسلحہ کے ساتھ سیف زون کو خالی کردے گی۔
ترکی اور روس نے کرد ملیشیا کو ایسے وقت میں مہلت دی ہے جب واشنگٹن اور انقرہ کے درمیان 17 اکتوبر کو 5 روز کیلئے ہونے والی سیز فائر کی مدت ختم ہونے میں چند گھنٹے باقی ہیں۔
ترک صدر کا کہنا تھا کہ ترک اور روسی فوجی دستے شام کی سرحد میں ’سیف زون‘ کے مشرق اور مغرب کی جانب 10 کلومیٹر تک کے علاقے میں مشترکہ گشت بھی کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے متاثرہ ملک شام میں ترکی کی کوششوں سے امن اور استحکام قائم ہورہاہے، ترکی نے 3500 کرد اور 30 لاکھ شامی بھائیوں کو ساڑھے 8 سال سے پناہ دے رکھی تھی لیکن اب شامی بھائیوں کیلئے اپنے وطن کی حسرت ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر روسی صدر ولادی میر پیوٹن کا کہنا تھا کہ ترکی کی سرحدوں کی سلامتی سے متعلق خدشات سے بخوبی آگاہ ہیں اور ترکی کے قومی سلامتی سے متعلق اقدامات کو ہم خیر سگالی کے جذبے سے دیکھتے ہیں اور اِس حوالے سے ترکی کو پہلے بھی آگاہ کرچکے ہیں۔
دونوں صدور کی پریس کانفرنس کے بعد روس اور ترکی کے وزرائے خارجہ نے 10 شقوں پر مشتمل مطابقت متن کو پڑھ کر سنایا۔
یاد رہے کہ ترکی کی جانب سے شمالی شام میں 9 اکتوبر سے کرد باغیوں کے خلاف بہارِ امن ’پیس اسپرنگ‘ کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا گیا تھا جس میں 600 سے زائد کرد ملیشیا کے اہلکاروں کے مارے جانے اور کئی قصبوں پر قبضے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
17 اکتوبر کو امریکی مداخلت پر ترکی نے شمالی شام میں کردوں کیخلاف آپریشن 5 روز کیلئے معطل کیا تھا لیکن اس عارضی جنگ بندی کے باوجود شیلنگ کی اطلاعات ملی تھیں۔
ترکی اپنی سرحد سے متصل 32 کلو میٹر تک کے شامی علاقے کو محفوظ بنا کر ترکی میں موجود کم و بیش 20 لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو وہاں ٹھہرانا چاہتا ہے اور ترکی کا مطالبہ ہےکہ کرد ملیشیا شمالی شام کی 32 کلو میٹر کی حدود سے باہر چلی جائے اور یہ علاقہ ’سیف زون‘ کہلا سکے۔
کرد ملیشیا آزاد ملک کے قیام کیلئے سرگرم ہے، عراق میں کردستان کے نام سے ایک خودمختار علاقہ کردوں کو دیا گیا ہے تاہم وہ شام اور ترکی کے کچھ علاقوں کو بھی کردستان کا حصہ بنانا چاہتے ہیں جبکہ ترکی کرد ملیشیا کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔
2014 میں امریکی صدر باراک اوباما نے پہلی مرتبہ داعش کے خلاف شام میں فضائی آپریشن شروع کیا اور 2015 کے اواخر میں اپنے 50 فوجی بھیج کر شامی خانہ جنگی میں باضابطہ طور پر حصہ لیا۔
امریکی فوجی داعش کے خلاف لڑنے کیلئے شامی کرد ملیشیا اور جنگجوؤں کو تربیت دیتے رہے ہیں۔ 20 دسمبر 2018 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں داعش کو شکست دینے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔