پاکستان
Time 23 اکتوبر ، 2019

کسی قیمت پر استعفیٰ نہیں دوں گا: وزیراعظم عمران خان کا دو ٹوک اعلان


وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کے مطالبے پر کسی بھی قیمت پر  استعفیٰ نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔

سینئر صحافیوں، تجزیہ کاروں اور اینکر پرسنز سے پونے 2 گھنٹے طویل ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال پر گفتگو کی۔ 

انہوں نے کہا کہ استعفے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کسی بھی قیمت پر استعفیٰ نہیں دوں گا اور اس طرح ملک کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔

وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ وہ ملک کو مشکلات سے نکال کر دکھائیں گے، منہگائی اور بیروزگاری بڑے مسائل ہیں اور یہ کہ وہ اس پر کام کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے حکومت کے خلاف 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے جس کی جماعت اسلامی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے حمایت کر رکھی ہے جب کہ جے یو آئی ف اور رہبر کمیٹی کی جانب سے حکومت سے مذاکرات کے لیے سب سے پہلے وزیراعظم عمران خان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 

سینئر صحافیوں سے ملاقات میں وزیراعظم  نے مزید کہا کہ ’اپوزیشن کی ہر جماعت مختلف بات کر رہی ہے نہیں معلوم اُن کا ایجنڈا کیا ہے؟  نواز شریف کچھ اورکہتے ہیں، مولانا صاحب کچھ جب کہ بلاول بھٹو اور  شہباز شریف کچھ اور کہتے ہیں‘۔

وزیراعظم عمران خان نے سینئر صحافیوں، تجزیہ کاروں اور اینکر پرنسز سے ملاقات کی — عمران خان آفیشل 

مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ مولانا کے احتجاج کا ایک مخصوص ایجنڈہ ہے۔ "بھارتی میڈیا دیکھیں مولانا فضل الرحمان کے دھرنے پر خوشیاں منائی جارہی ہیں، بھارت پہلے مولانا حضرات کے خلاف تھا لیکن آج دھرنے پر خوشیاں منا رہا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ مولانا کے انٹرویو اور خبر چلانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مولانا ہر سیاسی جماعت کو الگ الگ ایجنڈا بتاتے ہیں، حکومتی کمیٹی اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے مذاکرات کرے گی تاکہ ان کا ایجنڈا جان سکیں۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اشارے ایسے مل رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کو باہر سے سپورٹ حاصل ہے، اِس دھرنے کا وقت بہت اہم ہے، دھرنے کی وجہ سے کشمیر کے ایشو سے ساری توجہ ہٹ چکی ہے، فی الحال مولانا فضل الرحمان کی یہ خواہش ہے کہ مائنس وزیراعظم ہوجائے اور ان  کی یہ خواہش اس لیے ہےکہ وزیراعظم کرپشن کےخاتمے کے پیچھے ہے‘۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل چاہتا ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں جنگ ہو لیکن پاکستان کی کوشش ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں مصالحت کرائی جائے۔

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے مشروط طور پر اپوزیشن کو آزادی مارچ کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

دوسری جانب وفاقی حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کو روکنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں اور دریائے سندھ پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کو ملانے والے اٹک پل پر کنٹینرز پہنچادیے ہیں، پُل کو بند کرنے کیلئے وزارت داخلہ کے فیصلے کا انتظار کیا جارہا ہے، پل پر کنٹینرز لگانے کا کام جاری ہے تاہم ٹریفک کے لیے ابھی ایک لین کھلی ہے۔

پولیس حکام کے مطابق وزارت داخلہ کا حکم ملتے ہی اٹک پل کو مکمل بند کردیا جائے گا جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ آزادی مارچ کے پیش نظر پشاور سے لاہور جی ٹی روڈ بھی بند کیے جانے کا امکان ہے۔

اُدھر وفاقی دارالحکومت میں آزاد کشمیر، پنجاب اور بلوچستان سے اضافی پولیس نفری طلب کرلی گئی ہے جنہیں ٹھہرانے کیلئے اسلام آباد کی سرکاری عمارتیں خالی کرانے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

اسلام آباد اور کراچی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کارکنوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے جن پر مختلف مقدمات بنائے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ 

مزید خبریں :