مولانا پہلا راؤنڈ جیت چکے

جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الحمٰن— فوٹو فائل

آج کل جو کوئی بھی ملتا ہے ایک ہی سوال پوچھتا ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ کسی کے اشارے پر ہو رہا ہے؟

اس کا جواب تو میرے پاس نہیں لیکن مولانا کا دھرنا ہر پاکستانی کی توجہ کا مرکز ضرور بن چکا ہے۔ بہت سوں نے اس دھرنے کے ساتھ اپنی امیدوں کو جوڑ رکھا ہے یہاں تک کہ لبرلز کا ایک طبقہ بھی سوشل میڈیا کے ذریعے مولانا کی حمایت کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف کئی حکومتی ذمہ داروں کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے افراد کافی اَپ سیٹ نظر آ رہے ہیں۔

شیخ رشید بھی اب کچھ کنفیوز کنفیوز نظر آ رہے ہیں۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی اور دوسری اپوزیشن جماعتیں مولانا کے ساتھ ضرور کھڑی نظر آتی ہیں لیکن کسی کے پاس اس بات کا جواب موجود نہیں کہ آخر کار مولانا فضل الرحمٰن نے اکتوبر کے مہینے کو ہی اپنے آزادی مارچ کے لیے کیوں چنا۔

نون لیگ اور پی پی پی کی خواہش تھی کہ احتجاج کے لیے دسمبر موزوں رہے گا کیونکہ نومبر کا اہم مہینہ گزر چکا ہوگا۔ لیکن مولانا نے کسی کی نہ سنی اور آزادی مارچ کیلئے اکتوبر کا فیصلہ کیا۔ اس کے پیچھے کیا حکمت ہے اس کا جواب کم از کم میرے ے پاس نہیں، لیکن کسی کو اس بات کا شک نہیں ہونا چاہئے کہ مولانا ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ کسی گیلی جگہ پر پائوں نہیں رکھتے۔

مولانا کا آزادی مارچ کامیاب ہوگا یا ناکام، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن مولانا قومی سیاست کا محور ضرور بن چکے ہیں اور عمران خان کی حکومت کے لیے ایک خطرہ۔

آج اسلام آباد میں گھر سے آفس آتے ہوئے دیکھا کہ حکومت نے ہر سڑک، ہر چوک پر کنٹینر پہنچا دیے ہیں، خندقیں کھودی جا رہی ہیں۔ مولانا اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کریں گے یا نہیں، یہ تو بعد کی بات ہے لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے لاک ڈاؤن کی مکمل تیاری کر لی ہے اور وہ بھی کئی دن پہلے ہی۔

کنٹینرز دیکھ کر حکومت کا ڈر اور خوف سمجھ آ رہا ہے۔ جب میں دفتر پہنچا تو خبر سنی کہ حکومت نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمٰن کو مشروط طور پر آزادی مارچ کی اجازت دے گی اور شرط یہ ہو گی کہ احتجاج پُرامن ہو اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کے مطابق ہو۔

اب وقت ہی فیصلہ کرے گا کہ حکومت کی اصل حکمت عملی کیا ہو گی لیکن جو تیاری مولانا کی ہے اور جس انداز میں اُنہوں نے اپنے ورکرز اور ووٹرز کو تیار کیا ہوا ہے، اگر حکومت رکاوٹیں کھڑی نہیں کرتی تو پھر بہت بڑی تعداد میں لوگوں کی آزادی مارچ میں شرکت کا اندازہ ہے۔

مولانا یا اُن کی پارٹی کو چھوڑیں، یہاں تو عام لوگ جو موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے تنگ ہیں، ان میں سے بھی کئی آزادی مارچ میں شامل ہونے کے لیے بے چین ہیں۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو دھرنا دینے کی اجازت اور کنٹینر فراہم کرنے کا وعدہ ضرور کیا تھا لیکن اس معاملہ میں بھی ایک یوٹرن کی ہی توقع ہے اور آج کے حکومتی اجلاس کے حوالے سے ٹی وی چینلز جو مرضی کہیں، مجھے نہیں لگتا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو احتجاج کے بارے میں فری ہینڈ دیا جائے گا۔

جو تیاریاں ہو رہی ہیں اور جس انداز میں کیٹینرز تمام سڑکوں اور چوکوں میں پہنچائے جا رہے ہیں، مدرسوں، ہوٹلوں اور ہوسٹلوں کو خالی کرانے کی باتیں ہو رہی ہیں، گرفتاریاں کی جا رہی ہیں اُنہیں دیکھ کر فری ہینڈ چاہے مشروط ہو، ممکن نظر نہیں آتا۔

اگر مولانا کو شرائط کے ساتھ ایک بڑے ہجوم کے ساتھ اسلام آباد آنے دیا گیا تو پھر آگے کیا ہوگا، اس کا فیصلہ حکومت نہیں مولانا کریں گے۔ دوسری صورت میں حکومت اس مارچ کو روکنے کے لیے خود ایک ایسے لاک ڈائون کی طرف جا رہی ہے جس سے اسلام آباد اورراولپنڈی کیا، پاکستان کے دوسرے علاقے متاثر ہوں گے۔

رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو جگہ جگہ اور شہر شہر دھرنے ہو سکتے ہیں، موٹر وے اور جی ٹی روڈ تو ویسے ہی بند ہو جائیں گی۔

گویا مولانا نے جو صورتحال حکومت کے لیے پیدا کر دی ہے وہ وزیراعظم عمران خان کے لیے بہت مشکل ہے اور یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حکومت کو اپنی معاشی پالیسیوں اور خراب گورننس کی وجہ سے پہلے ہی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

اس صورتحال میں اب یہ اہم نہیں رہا کہ حکومت آزادی مارچ سے نمٹنے کے لیے کیا کرے گی بلکہ سب نظریں اب مولانا پر مرکوز ہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ اس سیاسی جنگ کا پہلا رائونڈ مولانا جیت چکے ہیں۔

مزید خبریں :