25 اکتوبر ، 2019
لاہور: ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی چوہدری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت منظور کرلی تاہم ان کی فوری رہائی ممکن نہیں۔
یادرہے کہ نوازشریف جس کیس میں سزا یافتہ ہیں جب تک اس کیس میں ضمانت نہیں ہوگی تب تک ان کی رہائی ممکن نہیں۔
نوازشریف کو احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا سنائی ہے جس کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست کی سماعت منگل کے روز ہوگی۔
لاہورہائیکورٹ میں سماعت
لاہور ہائیکورٹ میں نوازشریف اورمریم نواز کی چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی جس سلسلے میں سابق وزیراعظم کا علاج کرنے والی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر محمود ایاز لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔
نوازشریف کی بیماری کے بارے میں ابھی نہیں بتاسکتے: ڈاکٹر محمود ایاز
ڈاکٹر محمودایاز نے عدالت کے استفسار پر میڈیکل بورڈ بنانے کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا اور عدالت کو بتایا کہ انہیں مختلف مسائل ہیں جن میں ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کی بیماری ہے جب کہ نواز شریف کے گردے بھی خراب ہیں اور دو مرتبہ دل کا آپریشن بھی ہوچکا ہے۔
ڈاکٹر محمود ایاز کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی بیماری کے بارے میں ابھی نہیں بتاسکتے تاہم ان کا علاج پاکستان میں ممکن ہے، میڈیکل بورڈ ان کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کرچکا ہے، نواز شریف کو ڈینگی بخار نہیں، لاہور میں ان کے علاج کی تمام سہولیات موجود ہیں۔
ڈاکٹر محمود ایاز نے عدالت کو مزید بتایا کہ ہم نے ٹیسٹ لیے ہیں، نواز شریف کا بون میرو ٹھیک ہے، ان کے خون کے خلیے جلد ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں، ان کے پلیٹیلیٹس بہت جلدی گر جاتے ہیں۔
گزشتہ دو ماہ میں نوازشریف کا وزن 5 کلو کم ہوا ہے: سربراہ میڈیکل بورڈ
عدالت نے میڈیکل بورڈ کے سربراہ سے استفسار کیا کہ نواز شریف کی طبی صورت حال کیا ہے، اس پر انہوں نے بتایا کہ بورڈ دن میں تین مرتبہ نواز شریف کا طبی معائنہ کرتا ہے، ان کا گزشتہ دو مہینے میں 5 کلو وزن کم ہوا ہے، ہم نے انہیں سٹیرائیڈز دینے شروع کردیئے ہیں۔
ڈاکٹر محمود ایاز کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو خون گاڑھا کرنے کی ادویات نہیں دے سکتے، انہیں امینوگلوبین کا انجکشن لگا رہے ہیں۔
ڈاکٹر محمود کی بریفنگ کے بعد عدالت نے انہیں میڈیکل بورڈ کے دس ممبران کی رپورٹ ساڑھے 12 بجے تک عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
نوازشریف کی طبیعت تشویشناک ہے: سربراہ میڈیکل بورڈ
بعد ازاں کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ڈاکٹر محمود ایاز نے نوازشریف کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کی۔
جسٹس باقر نجفی نے ڈاکٹر محمود ایاز سے استفسار کیا کہ آپ نواز شریف کے اسپتال میں علاج کے بارے کیا کہتے ہیں، اس پر ڈاکٹر محمود نے بتایا کہ نواز شریف کی بیماری کی تشخیص کچھ حد تک ہوچکی ہے لیکن ابھی بھی مکمل تشخیص نہیں ہوئی، انہیں بیماری ہوئی کیسے اس بات کا پتا چلارہے ہیں، گزشتہ روز نوازشریف کے سینے میں تکلیف ہوئی اور بازو میں بھی تکلیف ہوئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نوازشریف کی جان خطرے میں ہے؟ اس پر ڈاکٹر محمود نے بتایا کہ جی نوازشریف کی طبیعت تشویشناک ہے، وہ تب سفرکر سکتے ہیں جب ان کے پلیٹ لیٹس 50 ہزار ہوں گے۔
عدالت نے نیب کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا نیب اس درخواست ضمانت کی مخالفت کرتا ہے، اس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ اگر نواز شریف کا علاج پاکستان میں ممکن ہے تو ادھر ہی علاج ہونا چاہیے، اگر صحت خطرے میں ہے تو ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔
نوازشریف کو شدید نوعیت کے مختلف طبی مسائل ہیں: میڈیکل رپورٹ
عدالت میں پیش کی گئی میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ نوازشریف کو شدید نوعیت کے مختلف طبی مسائل ہیں۔
عدالت نے ڈاکٹر محمود ایاز سے سوال کیا کہ نواز شریف کی اسپتال میں طبی سہولیات کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں، اس پر ڈاکٹر محمود نے کہا کہ ہم نواز شریف کا بہتر علاج کررہے ہیں لیکن ابھی مرض کی تشخیص نہیں ہوئی، اس لیے ابھی تک کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہے، ان کے پلیٹلیٹس اچانک کم ہوجاتے ہیں ہم انہیں پلیٹلیٹس لگاتے ہیں، دل کے عارضے کے باعث ان کی طبی صورتحال مختلف ہے، نواز شریف کی طبی صورتحال ابھی تک تشویشناک ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم میڈیکل رپورٹ پر انحصار کریں تو درخواست گزار کا بیرون ملک سفر کرنا ممکن نہیں۔
نوازشریف کو ایک ایک کروڑ کے دو مچلکے جمع کرانے کا حکم
نوازشریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پر طویل سماعت ہوئی جس کے بعد عدالت نے سابق وزیراعظم کی چوہدری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت منظور کرلی۔
لاہور ہائیکورٹ نے نوازشریف کی ضمانت کے عوض ایک ایک کروڑ روپے کے دو مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
شہباز شریف کا بیان
نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کے فیصلے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی دعاؤں سے عدالت نے نواز شریف کی ضمانت منظور کر لی ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت پوری قوم کے لیے خوشی کی لہر ہے، ان کی درخواست کی منظوری پر وکلاء کی ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
صدر مسلم لیگ ن نے کہا کہ نواز شریف بڑی شدید قسم کی بیماری میں مبتلا ہیں اور ڈاکٹرز پورے اخلاص کے ساتھ ان کا علاج کر رہے ہیں، قوم ان کی صحت یابی کے لیے دعا کرے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کل تک ڈاکٹرز نواز شریف کی بیماری تک نہیں پہنچ سکے تھے لیکن یہ بات واضح ہو گئی ہے نا تو نواز شریف کو ڈینگی ہے اور نا ہی نواز شریف کے دل کی دوا اس بیماری کی وجہ ہے۔
نوازشریف کو اکیوٹ آئی ٹی پی ہے: پروفیسر طاہر شمسی
ماہر امراض ہیماٹالوجسٹ پروفیسر طاہر سلطان شمسی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نواز شریف کی بیماری تشخیص ہو گئی ہے اور ان کو لاحق بیماری کا نام اکیوٹ آئی ٹی پی ہے۔
ڈاکٹر طاہر شمسی کا کہنا ہے شکر ہے کہ نواز شریف کو کینسر نہیں، انہیں جو مرض ہے وہ قابل علاج ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ نواز شریف کا بون میرو جانچنے کے لیے ٹیسٹ کیا گیا، نواز شریف کو بون میرو کا کوئی کینسر نہیں ہے، نواز شریف کی بیماری کا علاج اسٹیرائیڈ اور آئی وی آئی جی انجیکشن کے ذریعے ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا کہ یہ ادویات ملنے کے بعد مریض کے پلیٹیلیٹس بننا شروع ہو جاتے ہیں، آئی وی آئی جی انجیکشن ملنے کے 10 سے 12 روز بعد مریض کے پلیٹیلیٹس تقریباً نارمل ہو جاتے ہیں۔
پس منظر
نیب لاہور کی حراست میں میاں نوازشریف کی طبیعت 21 اکتوبر کو خراب ہوئی اور ان کے پلیٹیلیٹس میں اچانک غیر معمولی کمی واقع ہوئی، اسپتال منتقلی سے قبل سابق وزیراعظم کے خون کے نمونوں میں پلیٹیلیٹس کی تعداد 16 ہزار رہ گئی تھی جو اسپتال منتقلی تک 12 ہزار اور پھر خطرناک حد تک گرکر 2 ہزار تک رہ گئی تھی۔
نوازشریف کو پلیٹیلیٹس انتہائی کم ہونے کی وجہ سے 3 میگا یونٹس پلیٹیلیٹس لگائے گئے جب کہ ان کے علاج و معالجے کے لیے ایک ڈاکٹر اسلام آباد اور ایک کراچی سے بلایا گیا۔
سابق وزیراعظم کے طبی معائنے کے لیے 6 رکنی میڈیکل بورڈ بنایا گیا ہے جس کے سربراہ سمز کے پرنسپل پروفیسر محمود ایاز ہیں۔
دیگر ارکان میں ڈاکٹر کامران خالد، ڈاکٹر عارف ندیم ،ڈاکٹر فائزہ بشیر، ڈاکٹر خدیجہ عرفان اور ڈاکٹر ثوبیہ قاضی شامل ہیں۔
میڈیکل بورڈ سینئر میڈیکل اسپیشلسٹ، گیسٹرو انٹرولوجسٹ، انیستھیزیا اسپیشلسٹ اور فزیشن پر مشتمل ہے۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف چوہدری شوگر مل کیس میں نیب کی حراست میں ہیں جب کہ احتساب عدالت کی جانب سے انہیں العزیزیہ ریفرنس میں7 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔