01 نومبر ، 2019
پاکستان کے سابق وزیراعظم اور کروڑوں عوام کے محبوب رہنما بہت عرصے سے وہ سختیاں سہہ رہے ہیں جو سہنا ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں، صرف وہ نہیں، ان کی صاحبزادی مریم نواز، دو بھتیجے حمزہ شہباز اور یوسف عباس، داماد کیپٹن (ر) صفدر اور خاندان کے دیگر افراد کے علاوہ نواز شریف اور شہباز شریف کی 85سالہ والدہ جس کرب سے گزر رہی ہیں اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔
میاں نواز شریف پہلے دن سے عدالتوں پر بھروسہ کرتے اور ان کے فیصلوں کی پابندی کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ اپنی جیون ساتھی کلثوم نواز کو زندگی اور موت کی کشمکش میں چھوڑ کر اپنی بیٹی مریم کے ساتھ لندن سے جیل جانے کے لئے پاکستان آئے۔
پنجاب کو یورپ جیسا ترقی یافتہ صوبہ بنانے کی خواہش رکھنے اور اس حوالے سے ٹھوس منصوبے مکمل کرنے والے شہباز شریف کبھی جیل جاتے ہیں، کبھی ضمانت پر باہر آ جاتے ہیں اور اپنے بھائی کے لئے جس سے وہ بےپناہ محبت کرتے ہیں، سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔
سلمان شہباز، حسین نواز، حسن نواز اور نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار اگرچہ بیرون ملک ہیں لیکن ان کی اذیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
پاکستان میں نوزائیدہ ایک سنگدل طبقے نے اس خاندان اور ان سے ہمدردی رکھنے والے افراد جن میں صحافیوں کی ایک تعداد بھی شامل ہے، کی بدترین کردار کشی کی۔ اس طبقے کے افراد نے پہلے بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو ڈھونگ ثابت کرنے کی کوشش کی، حتیٰ کہ اسپتال میں ان کی وفات کو بھی ایک عرصے تک تسلیم نہیں کیا۔
اس طرح میاں نواز شریف کی علالت کا بھی سنگدلانہ مذاق اڑایا گیا حتیٰ کہ ان کی حالت اتنی تشویشناک ہو گئی کہ انہیں اسپتال داخل کرنا پڑا۔
نواز شریف اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں
نواز شریف اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں چنانچہ ان کے معالج ڈاکٹر عدنان کو عدالت میں کہنا پڑا کہ خدانخواستہ ہم کہیں نواز شریف کو کھو نہ دیں۔ نواز شریف کی صحت سنبھلنے میں نہیں آ رہی مگر وہ پوری پامردی سے ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
ان دنوں سننے میں آ رہا ہے کہ مقتدر طبقے انہیں علاج کے لئے بیرون ملک بھیجنا چاہتے ہیں اور اس پر میاں صاحب کو راضی کرنے کے لئے ہر ممکن کوششیں کی گئی ہیں۔
میاں صاحب کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ ان کی بےبنیاد کردار کشی کی گئی چنانچہ وہ عدالتوں کی طرف سے بےقصور ثابت ہونے تک اپنی جان کی پروا کئے بغیر موجودہ حالت ہی میں رہنے پر بضد ہیں۔
فواد حسن فواد، احد چیمہ اور شاہد خاقان عباسی جیسے مرد قلندر قیدوبند میں ہر طرح کی تکالیف سہنے کے باوجود اس بات پر قائم و دائم ہیں کہ میاں صاحب کے دور میں کوئی کرپشن نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کا کوئی ثبوت سامنے لایا جا سکا ہے۔
رانا ثناء اللہ نے ہر قسم کے تشدد کے باوجود اپنے لیڈر کا ساتھ نہیں چھوڑا، ماضی میں اس کردار کا مظاہرہ پرویز رشید نے کیا تھا اور وہ آج بھی اپنی جماعت کے ہم قدم ہیں۔
مقتدر حلقے نوازشریف کو بیرون ملک بھیجنا چاہتے ہیں
میں نے یہ تفصیل یوں بیان کی کہ تمام تر کوششوں کے باوجود مسلم لیگ(ن) کو توڑا نہیں جا سکا۔
دوسری طرف مقتدر قوتیں ہیں جن کی حب الوطنی میں مجھے کوئی شک نہیں! وہ دیکھ رہی ہیں کہ حکومت سے امور حکومت سنبھالے نہیں جا رہے، انہیں سب سے زیادہ فکر پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت اور خارجہ پالیسی کے نتیجے میں پاکستان کے تنہا رہ جانےکی ہے، چنانچہ بطور محب وطن ممکن ہے ان کی سوچ یہ ہے کہ اگر میاں صاحب باہر جانے پر راضی ہو جائیں تو حکومتی ٹیم میں ردوبدل سے پاکستان کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں تاہم یہ ایک مفروضہ ہے۔
میں اس کی تصدیق یا اس کی تفصیلات سے واقف نہیں ہوں، میں خود بھی صرف ایک کٹر پاکستانی ہی نہیں ہوں بلکہ اس معاملے میں سخت انتہا پسند واقع ہوا ہوں چنانچہ میری درخواست ہے کہ میاں صاحب کی صحت اور پاکستان کے دگرگوں حالات کے پیش نظر ہمارے مقتدر طبقے اور ہماری قابل فخر عدلیہ جس کے کسی فیصلے سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے مگر ان کی نیت پر شک ممکن نہیں۔
ہم سب پاکستان کو مضبوط اور توانا دیکھنا چاہتے ہیں چنانچہ پیشتر اس کے کہ نواز شریف کی صحت خدا نہ کرے مزید زوال پذیر ہو ان کے کہے کو سنجیدہ لیا جائے۔ نواز شریف سمیت سب سیاسی قیدیوں کے معاملات کا ازسرنو جائزہ لیا جائے تاکہ پاکستان کسی مزید بڑے بحران کا شکار نہ ہو۔