01 نومبر ، 2019
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت پر نیا شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔
فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ہوئی۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی عدالت میں پیش ہوئیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے دورران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ ایک اہم عہدے پر فائز ہیں، آپ ایک ایسے وزیر اعظم کی مشیر ہیں جو قانون کی بالادستی کے علم بردار تھے، آپ نے ایک زیر التوا معاملے پر بات کی اس لئے نوٹس جاری کیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ آپ میری ذات کے بارے میں جو کہیں مجھے کوئی پرواہ نہیں کیوں کہ سچ سچ ہوتا ہے، ہم منتخب نمائندوں اور کابینہ کی بہت عزت کرتے ہیں لیکن آپ کی گفتگو سے فیئر ٹرائل کا حق متاثر ہوتا ہے۔
اگر آپ کو وزارت قانون نے کچھ نہیں بتایا تھا تو کسی سینئر وکیل سے ہی پوچھ لیتیں: جسٹس اطہر من اللہ
اس موقع پر عدالت نے فردوس عاشق اعوان کو عدالتی رولز پڑھنے کا کہا جس پر انہوں نے اونچی آواز میں عدالتی رولز پڑھے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی بھی ارجنٹ معاملہ عدالت آ سکتا ہے، ہم کبھی بھی چھٹی پر نہیں ہوتے، آپ کے اپنے میڈیکل بورڈ نے کہا ہوا ہے کہ کنڈیشن تشویشناک ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ کو اگر وزارت قانون نے کچھ نہیں بتایا تھا تو کسی سینئر وکیل سے پوچھ لیتیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مجھے اس عدالت کے ججوں پر فخر ہے، ایک سال کے دوران ہم نے سب سے زیادہ درخواستیں نمٹائیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ توہین کر رہی تھیں کہ کاش غریب لوگوں کے لیے بھی ایسا ہو، ہم یہاں بیٹھے ہی عام لوگوں کے لیے ہیں، ہم صرف اللہ کو جواب دہ ہیں جس کا نام لےکر حلف لیا۔
ان کا کہنا تھا ہم پریس کانفرنس نہیں کر سکتے اس لیے آپ کو بلایا، آپ نے خود عدالتی رولز پڑھ لیے ہیں۔
یقین ہے آپ کو وزیراعظم نے ایسا کہنے کیلئے نہیں کہا ہو گا: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
جسٹس اطہر من اللہ نے فردوس عاشق اعوان سے استفسار کیا کہ کیا آپ کبھی ضلعی عدالتوں میں گئی ہیں؟ اس سماعت کے بعد وہاں جا کر دیکھیں دکانوں میں عدالتیں لگی ہیں، اُس کچہری میں عام لوگوں کے مسائل سنے جاتے ہیں، آپ بار کے صدر کے ساتھ جائیں اور صورتحال دیکھیں، اُس کچہری میں ٹوائلٹ تک موجود نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں آپ کو کبھی شوکاز نوٹس جاری نہ کرتا، آپ کو صرف دکھانے کے لیے بلایا کہ آپ نے کیا کیا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کبھی کہا جاتا ہے کہ کوئی ڈیل ہو گئی ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ کو وزیراعظم نے ایسا کہنے کے لیے نہیں کہا ہو گا۔
فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ عدلیہ کی توقیر میں کمی کا سوچ بھی نہیں سکتی، میں غیر مشروط معافی مانگتی ہوں، میں مستقبل میں مزید محتاط رہوں گی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ عدلیہ کی توقیر میں کمی آپ کے الفاظ سے نہیں ہوتی، ہمارے فیصلوں سے عدلیہ کی توقیر میں کمی ہو سکتی ہے، کوئی کہتا ہے کہ ڈیل ہو گئی، پوچھیں کیا کسی نے ججز کو اپروچ کیا ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جج پر ذاتی تنقید پر عدالتیں ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہیں، عدالت اس متعلق آپ کی معافی قبول کرتی ہے اور آپ کے خلاف توہین عدالت کا پرانا شوکاز نوٹس واپس لیا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ کو کرمنل توہین عدالت کا نیا نوٹس جاری کیا جا رہا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فردوس عاشق اعوان کو پیر تک تحریری جواب داخل کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو یہاں سے ڈسٹرکٹ کورٹس لے کر جائیں گے، آپ دیکھیں کہ ججز اور وکلاء صاحبان کس طرح کام کر رہے ہیں، ڈسٹرکٹ کورٹس میں عوام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، یہ عدلیہ نہیں بلکہ 30 سال سے انتظامیہ کی غفلت کا نتیجہ ہے۔
فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ منگل کو کابینہ کا اجلاس ہوتا ہے، اس دن سماعت نہ رکھیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ ڈسٹرکٹ کورٹس میں ہی کابینہ میٹنگ رکھوائیں تاکہ وہ وہاں کے حالات دیکھ سکیں، آئندہ سماعت کی تاریخ تبدیل نہیں کی جائے گی۔
عدالت نے فردوس عاشق اعوان کو بار کے نمائندوں کے ساتھ ڈسٹرکٹ کورٹس کے دورے کا حکم بھی دیا۔
خیال رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پر فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے عدالت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ایک ملزم کو خصوصی رعایت دینے کے لیے شام کے وقت عدالت لگائی گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فردوس عاشق اعوان کے بیان کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔