مبارک ہو مسلمانو! مبارک ہو

 ابھی تک قافلہ منزل کی طرف رواں ہے: فوٹو/ اے ایف پی

تادمِ تحریر مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ پشاور موڑ اسلام آباد نہیں پہنچا۔ ابھی تک قافلہ منزل کی طرف رواں ہے۔ مولانا نے اس مارچ کا آغاز کراچی سے کیا اور سکھر، ملتان میں بڑے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے لاہور پہنچے جہاں ن لیگ کے کارکنوں کو نواز شریف اور مریم نواز کی قیادت کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوئی۔

اب یکم نومبر کو ایک مشترکہ جلسے کی خبر ابھی سنائی دی جا رہی ہے لیکن یہ جلسہ احتجاج یا دھرنا کی شکل اختیار کرتا ہے، کس کس کا استعفیٰ مانگتا ہے، کس کس سے صلح کرتا ہے، کس کس سے جنگ مول لیتا ہے، کہاں مفاہمت سے کام لیتا ہے اور کہاں رقابت دکھاتا ہے یہ کہنا ابھی ممکن نہیں۔

فی الوقت اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ مولانا کے ساتھ لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور اس تعداد میں اپوزیشن کی جماعتوں نے کچھ نہ کچھ حصہ ڈالا ہے۔

اس طرح کےجلسے / دھرنے میں لوگوں کی تعداد کا درست اندازہ لگانا کبھی ممکن نہیں ہوتا لیکن اس جلسے / دھرنے کا براہ راست تقابل عمران خان اور انکے سیاسی کزن طاہر القادری کے معروف دھرنے سے ہورہا ہے۔ مولانا نے بھی اچھے خاصے لوگ جمع کر لئے ہیں لیکن سچ بات تو یہ کہ کئی دن کی جہد مسلسل کے بعد بھی وہ مزا نہیں آیا جو عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے کا تھا۔ ہائے ہائے کیا دھرنا تھا۔

لمحہ لمحہ کی خبر عوام تک براہ راست پہنچتی تھی۔ تمام چینلز کی ڈی ایس این جیز ہاتھ باندھے سرنگوں کوریج کے لئے تیار نظر آتی تھیں۔ رپورٹر درختوں پر چڑھ کر رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔ شرکاء کے ناشتے پر دستاویزی رپورٹس گھنٹوں چلا کر تی تھیں۔ خواتین کے کپڑے دھونے کی کارروائی پر ٹاک شوز میں طویل بحثیں ہوا کرتی تھیں۔

چھوٹے چھوٹے بچوں کے گائے ترانے بریکنگ نیوز بن جاتے تھے۔ اس دھرنے میں موجود خوانچہ فروشوں کی جہد مسلسل پر معروف تجزیہ کار تبصرے کیا کرتے تھے۔ رقص کرتی خواتین کی کوریج کرنے کے لئےانٹرٹینمنٹ کی دنیا کے پروڈیوسر چینلز میں ملازمت پر رکھے گئے تھے۔ فیس پینٹنگ کی تصاویر اخبارات میں شائع کی جاتی تھیں۔ ڈی جے بٹ اس قوم کا ہیرو بن چکا تھا۔ کنٹینر کے پیچھے سیلفی گروپ سرگرم نظر آتا تھا۔

کئی خواتین خان صاحب سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی خواہش کا اظہار دیدہ دلیری سے کرتی تھیں۔ اتنے چینلز کی ڈی ایس این جیز کے باوجود کسی میں حاضرین کی تعدا د دکھانے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ کنٹینر کی سواریوں سے ٹی وی کے کیمروں کو فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔

ادھر ٹی وی پر جو اینکر انقلاب قادری کی نئی خبر لاتا تھا وہی ریٹنگ پاتا تھا۔ چوبیس گھنٹے لائیو کوریج کے درمیان جو موقع بچتا تھا وہاں ناظرین کو جغادری تجزیہ کاروں کے حوالے کر دیا جاتا تھا۔

کوئی اسے انقلاب فرانس سے موسوم کرتا، کوئی زار روس کے خلاف ہونے والی بغاوت کے مساوی قرار دیتا، کوئی کرپٹ مافیا کے خلاف برصغیر پاک و ہند میں ہونے والی سب سے بڑی جنگ قرار دیتا اور کوئی پاکستان کی تاریخ میں ایک سنہری تبدیلی سے تعبیر کرتا۔

آپس کی بات ہے اس دھرنے کی جان علامہ طاہر القادری ہوا کرتے تھے۔ جب وہ اپنے سینے پر گولی کھانے کی برملا فرمائش کرتے تھے تو حاضرین مارے رقت کے گریہ کناں ہو جاتے تھے۔ جب وہ اپنے منحنی وجود کے ساتھ ہانپتے کانپتے ’’مبارک ہو مسلمانو! مبارک ہو‘‘ کا نعرہ لگاتے تھے تو لوگ جان جاتے تھے کہ کپتان نے ایک اور وکٹ گرا لی ہے، ایک اور استعفی خان کی جھولی میں آن گرا ہے۔ ایک اور پولیس والاعلامہ کے پرامن انقلاب کے زیر دام آ گیا ہے یا پھر فتح مبین کی جانب قافلہ ایک اور قدم آگے بڑھا ہے۔

یقین مانیے مولانا فضل الرحمٰن کے اس آزادی مارچ میں علامہ طاہر القادری اور ڈے جے بٹ کی یاد بہت ستا رہی ہے۔

نہ ہی میڈیا اس میں کوئی دلچسپی لے رہا ہے، نہ لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ ہو رہی ہے، نہ مولانا فضل الرحمٰن میں علامہ طاہر القادری والی شعبدہ بازیاں ہیں نہ اپنی قبریں کھودنے کے کوئی آثار نظر آ رہے ہیں۔ نہ درِ انصاف پر کپڑے سکھائے گئے ہیں نہ ابھی تک کفن پہننے کا اہتمام ہوا ہے۔

نہ فیس کو پینٹ کئے ہوئے بچے اس دھرنے میں موجود ہیں نہ کنٹینر ابھی تک ریڈ زون تک رسائی پا سکا ہے۔ نہ رقصاں خواتین کے جھنڈ ابھی تک کسی کو نظر آئے ہیں نہ کنٹینر سے کسی نے اپنی شادی کی قوم کو نوید سنائی ہے، نہ پرامن حاضرین کو ابھی تک سرکاری عمارات پر چڑھائی کا عندیہ ملا ہے نہ امپائر کی انگشت شہادت کا ابھی تک کوئی ذکر ہوا ہے۔ قصہ مختصر یہ دھرنا دو ہزار چودہ کے دھرنے کے مقابلے میں ابھی تک کافی بورنگ ہے۔

وہ رنگ ڈھنگ، وہ لہجہ وہ آہنگ وہ جذبہ او ر جنون ابھی تک اس مذکورہ جلسے/ دھرنے سے مفقود ہے۔ اسی وجہ سے نہ ٹی وی کے ٹاک شوز میں وہ سرگرمی نظرآ رہی نہ بریکنگ نیوز میں وہ شدت پائی جا رہی ہے۔

ان خامیوں کے باوجود اس جلسے یا دھرنے میں اب عوام کی دو دلچسپیاں ہیں ایک تو عوام اس دھرنے میں دیکھ رہے ہیں کہ کون سی پارٹی جمہوریت کے سبق پر قائم ہے، کون چور دروازے کی جانب دیکھ رہا ہے، کون ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتا ہے اور کون اپنے ووٹرز سے دغا کرتا ہے۔

دوسرا دلچسپی کا امر یہ ہے کہ فدائین کے اس اجتماع سے خطاب کرتےہوئے کس لمحے مولانا فضل الرحمٰن فتح مبین کا نعرہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں ’’مبارک ہو مسلمانو! مبارک ہو‘‘ اور دیکھنا یہ ہے کہ اس مبارک ساعت میں کس کس کا استعفیٰ مولانا کے ہاتھ آتا ہے، کس کس کی وکٹ گرتی ہے اور کون کون آزادی مارچ کا شہید کہلاتا ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

مزید خبریں :