05 نومبر ، 2019
آزادی مارچ کا پرامن حل نکالنے کیلئے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قائم حکومتی کمیٹی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان مذاکرات میں ڈیڈ لاک برقرار ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کے شرکاء 6 روز سے اسلام آباد کے ایچ 9 گراؤنڈ میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اور حکومت کے مذاکرات بھی جاری ہیں۔
گزشتہ روز حکومت اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد آج دن میں بھی دونوں کمیٹیوں کی ملاقات ہوئی۔
مذاکرات میں حکومتی کمیٹی کی جانب سے وزیر دفاع پرویز خٹک، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی، وفاقی وزیر شفقت محمود، نور الحق قادری اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر شریک تھے۔
اپوزیشن کی رہبر کمیٹی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما و خیبرپختونخوا اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اکرم خان درانی، مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال اور امیر مقام، پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما نیئربخاری، فرحت اللہ بابر، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار ، جمعیت علمائے پاکستان کے اویس نورانی اور شفیق پسروری شامل ہیں۔
مذاکرات میں دونوں جانب سے سفارشات پیش کی گئی تاہم کوئی بڑی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے اور وزیراعظم عمران خان کے استعفے سمیت مختلف معاملات پر ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی کمیٹیوں نے دوبارہ ملاقات پر اتفاق کیا ہے۔
مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں رہبر کمیٹی کے کنوینر اکرم خان درانی کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز بھی پرویز خٹک کی سربراہی میں حکومتی کمیٹی آئی تھی اور ہم نے وزیراعظم کے استعفے اور نئے الیکشن کے مطالبات سامنے رکھے تھے، یہ بھی مطالبہ رکھا تھا کہ الیکشن میں فوج کا عمل دخل نہ ہو اور ہم اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ درمیانی راستہ نکلے۔
اس موقع پر حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ابھی وہی پوزیشن ہے، ہماری بات چیت چل رہی ہے، ایسا راستہ دیکھ رہےہیں جس سے اپوزیشن کی بھی عزت رہے اور حکومت کا بھی خیال رکھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے مطالبات میں کئی چیزوں پر اتفاق ہوچکا ہے، باقی معاملات کیلئے ہم اپنی قیادت سے اور یہ اپنی قیادت سےبات کریں گے، ہم نے بہت اچھے ماحول میں بات کی اور کوشش کریں گے کہ ڈیڈلاک دور ہوجائے۔
پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ دونوں طرف سے کچھ باتیں ہوئیں جس میں سے کچھ چیزیں اچھی لگیں اور کچھ نہیں، معاہدہ ہوجائے گا تو پھر بتائیں گے کہ کس بات پر ہوا۔
حکومتی کمیٹی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی اندرونی کہانی سامنے آئی ہے جس کے مطابق حکومتی کمیٹی نے سفارشات رہبر کمیٹی کے سامنے رکھیں، سفارشات وزیراعظم عمران خان کی ہدایات کی روشنی میں رکھی گئیں۔
ذرائع کے مطابق حکومت انتخابی دھاندلی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی فعال کرنے پر رضامند ہے اور ساتھ ہی پیشکش کی ہے کہ اپوزیشن جو حلقے کھلوانا چاہے کھلوالے، پارلیمانی کمیٹی مکمل بااختیار ہوگی۔
ذرائع نے بتایا کہ اپوزیشن کے مطالبات بنیادی طور پر انتخابی اصلاحات سے متعلق ہیں لہٰذا اپوزیشن چاہے تو الیکشن کمیشن کی فعالیت کیلئے سپریم کورٹ سے رہنمائی لی جاسکتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی کمیٹی نے انتخابات میں فوج سے متعلق کہا کہ انتخابات میں فوج کی تعیناتی کا مقصد سیکیورٹی مسائل ہیں، بعض حلقوں میں بااثر لوگ مخالف امیدوار کو اٹھالے جاتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق حکومت آئین کی اسلامی دفعات کے تحفظ کی مکمل یقین دہانی کراتی ہے، ختم نبوت اور ناموس رسالت کے قوانین میں تبدیلی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا، کفر کے فتوے لگانے یا مذہبی منافرت پھیلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ذرائع نے بتایا کہ رہبر کمیٹی نے حکومتی تجاویز پر مشاورت کیلئے مزید وقت مانگ لیا اور کہا کہ ہماری قیادت کا واضح مؤقف ہے کہ مسائل کا حل نئے انتخابات ہیں۔
یاد رہے کہ آزادی مارچ کے اسلام آباد میں پڑاؤ کے بعد گزشتہ روز حکومت مذاکراتی کمیٹی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے پہلی بار ملاقات کی تھی۔
حکومتی کمیٹی نے وزیراعظم عمران خان سے صبح ملاقات کی تھی جس میں انہیں رہبر کمیٹی سے مذاکرات پر بریفنگ دی تھی۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے مذاکراتی ٹیم کو مکمل اختیار دیتے ہوئے استعفے کے علاوہ کوئی بھی جائز اورآئینی مطالبہ ماننے کی منظوری دی تھی۔