Time 12 نومبر ، 2019
دنیا

بابری مسجد کے تنازع میں کب کیا ہوا؟

1859ء میں برطانوی راج میں باڑ لگا کر مسجد اور مندر کو الگ کیا گیا: فائل فوٹو

491؍ سال قدیم بابری مسجد کے تنازع پر تاریخی موقف پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسجد کی ملکیت کا تنازع پہلی بار 1853ءمیں اٹھا اور اسی سال فسادات ہوئے، 1859ء میں برطانوی راج میں باڑ لگا کر مسجد اور مندر کو الگ کیا گیا۔

 دسمبر 1949ء میں ہندوؤں نے بت لاکر مسجد کے اندر رکھ دیے ، 1949ء ہی میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے وزیراعلیٰ یوپی گووند پنت کو مسجد سے مورتیاں ہٹانے کا حکم دیا۔

1992ء میں جب مسجد کو شہید کیا گیا تو اس کے ردعمل میں پھوٹ پڑنے والے مسلم کش فسادات میں پورے بھارت میں دو ہزار سے تین ہزار افراد مارے گئے۔ اس کے بعد ممبئی کے بم دھماکوں میں 250؍ افراد اپنی جانوں سے گئے۔ 2002ء میں بھارتی ریاست گجرات کی بدامنی میں ایک ہزار افراد قتل ہوئے اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ 

بابری مسجد کی شہادت پر بھارتی حکومت نے 16؍ دسمبر 1992ء کو ’’جسٹس برہان کمیشن‘‘ قائم کیا جس نے 16؍ سال بعد اس وقت کے بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کو اپنی رپورٹ 30؍ جون 2009ء کو پیش کی۔

نومبر 2009ء میں یہ رپورٹ افشا ہوئی جس میں بھارتی حکومت کے اعلی حکام اور ہندوقوم پرستوں کو مسجد کی شہادت پر مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ رپورٹ میں اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی، بی جے پی کےمرکزی رہنما ایل کے ایڈوانی، اس وقت یو پی کے وزیر اعلی کلیان سنگھ اور سابق وزیر تعلیم مرلی منوہر جوشی پر اشتعال انگیزی کو ہو ا دینے کا الزام لگایاگیا۔ 

رپورٹ میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ اگر جذبات کے بجائے ہوش سے کام لیا جاتاتو مسجد کی شہادت سے بچا جاسکتا تھا۔ ایودھیا بھارت میں ہندوؤں کے 7؍ مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ بابری مسجد یو پی کے ضلع فیض آباد میں ایودھیا کے مقام پر مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے حکم پر 1526ء میں ابراہیم لودھی سے پانی پت کی جنگ کے بعد 1528ء میں تعمیر کی گئی۔ 

مسجد کی ملکیت کا تنازع پہلی بار 1853ء میں کھڑا ہوا جب ہندوؤں کے مطابق مندر کو منہدم کرکے مسجد تعمیر کی گئی جبکہ مسلمانوں کا اپنا موقف رہا کہ بابر کی فوج کے ایک جنرل میر باقی نے بادشاہ کے نام پر مسجد تعمیر کرائی تھی۔ 

1853ء میں نواب واجد علی شاہ کے دور ہی میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ 1859ء میں برطانوی راج میں باڑ لگا کر مسجد اور مندر کو الگ کیا گیا۔ 1883ء میں مندر تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی جسے برطانوی ڈپٹی کمشنر نے 19 ؍ جنوری 1885ء کو ممنوع قرار دے دیا۔ 1886ء میں برطانوی ڈسٹرکٹ جج فیض آباد نے جگہ کے رام جنم بھومی ہونے کے مہانت رگھوبیر سنگھ کے دعوے کو مسترد کردیا بعد ازاں دوسری اپیل بھی مسترد ہوئی۔

1855ء تک مسلمان اور ہندو ایک جگہ ہی اپنے مذاہب کی عبادت کرتے رہے۔ دسمبر 1949ء میں ہندوؤں نے بت لا کرمسجد کے اندر رکھ دیئے حکومت نے گیٹس بند کرکے علاقے کو ممنوعہ قرار دے دیا۔

23؍ دسمبر 1949ء کو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے وزیراعلی یوپی گووند پنت کو مسجد سے مورتیاں ہٹانے کا حکم دیا۔ 1984ء میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کی ہندوؤں کی جانب سے تحریک شروع ہوئی۔

1985ء میں بھارتی عدالت نے ہندوؤں کو پوجا کے لئے مسجد کے دروازے کھولنے کا حکم دیا۔ردعمل میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی بنی۔ 1989ء میں وشوا ہندو پریشد نے مسجد سے متصل جگہ پر رام مندر کی بنیاد رکھی۔

1991ء میں بی جے پی مرکزی اپوزیشن جماعت بن کر ابھری اور یو پی میں اقتدار بھی حاصل کرلیا جس کے بعد رام مندر کی تعمیر کے لئے ہندو جوق در جوق ایودھیا آنے لگے۔ وہ مسجد شہید کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ 1992ء میں جنونی ہندو بالآخر مسجد شہید کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

مزید خبریں :