Time 15 نومبر ، 2019
پاکستان

تبدیلی کا اکلوتا نمونہ

فائل فوٹو: میاں نوازشریف

چین کے سوشلسٹ رہنما ماؤزے تنگ نے کہا تھا

’’میرے بھائی! میں دیکھ رہا ہوں۔ تم بڑے عرصے سے یہاں اِس انتظار میں بیٹھے ہو کہ تمہارے سامنے کھڑی ہوئی دیوار گرے اور تم اُس کے اُس پار بسی ہوئی جنت میں داخل ہو جاؤ۔ تمہارا انتظار درست ہے۔ وقت اُس کی جڑوں کو بوسیدہ کررہا ہے۔ تاریخ اُسے اپنے عبرت خانہ میں سجانے کے درپے ہے مگر ہم انتظار کی صبر آزما ساعتوں کے محشر سے کیوں دوچار رہیں۔ میں دو کدالیں لایا ہوں۔ ایک تم لے لو ایک میں۔ آؤ وقت کے ساتھ ہم بھی اِس کی تباہی کا سبب بننے والوں میں اپنا نام لکھوا دیں‘‘۔

میں نے عمران خان کی اِسی سوچ پر لبیک کہا اور وقت کی امداد کے لئے دوسروں کی طرح کدال ہاتھ میں لے لی پھر دنیا نے دیکھا کہ وقت کے ساتھ مل کر کدالوں نے دیوار گرا دی۔ اب سامنے وزیراعظم ہاؤس تھا، گورنر ہاؤسز تھے۔ عمران خان نےہم سے کہا یہ سب تمہارے ہیں، عوام کے ہیں، اب مَیں وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہوں گا۔ 

تمہارے بچے پڑھا کریں گے۔ اب گورنر ہاؤس کی دیواریں گرا دی جائیں گی۔ اس کے پارکوں میں کھلے پھولوں کی خوشبو آپ کے لئے ہوگی۔ اب دو نہیں ایک پاکستان ہوگا۔ اب نواز شریف اور مولو مصلی کے لئے ہی ایک قانون ہوگا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ 

بیمار مولو مصلی (ڈاکٹر امجد ثاقب کا کردار) جیل کے اسپتال میں دم توڑ گیا۔ جیل حکام نے کہا ہے ’’اللہ کی مرضی، بیچارے کی عمر اتنی ہی تھی‘‘۔ دوسری طرف نواز شریف کو صرف اس لئے ضمانت دی گئی کہ وہ بیمار ہیں۔ انہیں صرف ایک اسٹامپ پیپر پر یہ لکھ کر دینے کے بعد لندن جانے کی اجازت بھی دے دی گئی کہ اگر وہ صحت مند ہونے کے بعد واپس ملک میں نہ آئے تو وہ سات ارب روپے ادا کریں گے یعنی کوئی بھی قیدی اپنے اثاثوں کے مطابق رقم ادا کرے اور سزا یافتہ ہونے کے باوجود ہمیشہ کے لئے جیل سے باہر رہے۔

بڑی دیر بعد یہ بات میری اور عمران خان کی سمجھ میں آئی کہ تبدیلی اتنی آسانی سے نہیں آتی۔ بلیک بیوروکریسی نے وقت کے پہیے کو پکڑ رکھا ہے اور چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے ’’یہ چوکور پہیہ ہے بھئی یہ گھوم نہیں سکتا‘‘۔ بے شک تبدیلی کا آسمان بڑی سست رفتار ی سے گھومتا ہے۔ 

وقت جب کرب کے دوزخ میں کئی سال تڑپ لیتا ہے تو پھر کوئی ایسی پُرنور اور ضیا بخش ساعت نمودار ہوتی ہے جو کسی نئے دور کی خالق ثابت ہوتی ہے۔ کسی تبدیلی کی تمہید بنتی ہے۔ افسوس ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تعلیمی نظام بہتر ہونے کی جگہ خراب ہوتا جارہا ہے۔ پروفیسرز کی تنخواہیں کم کردی گئی ہیں اور بیورو کریٹس کی بڑھا دی گئی ہیں۔ یونیورسٹیوں کا بجٹ بڑھانے کے بجائے کم کردیا گیا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اتنا برا پہلے کبھی نہیں تھا جتنا اب ہے۔ وہاں نون لیگ کے دور کا لگایا ہوا چیئرمین ابھی تک بدلا نہیں جا سکا۔ بیچاری ’’تبدیلی‘‘ یہاں کیا کرے مگر ابھی تک تبدیلی پر میرا ایمان متزلزل نہیں ہوا۔ابھی تک میں یہی کہہ رہا ہوں۔

بیا جاناں تماشا کن کہ در ابنوہِ جانبازاں

بصد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم

(اِدھر آ جاناں، تماشا دیکھ کہ میں جانبازوں کے انبوہ میں تمام تر سامانِ رسوائی کے ساتھ رقص کر رہا ہوں)

وقت کا رقص بڑی ظالم شے ہے۔ اس کی کلائی کی ایک ایک کوس زمانے کو تہہ و بالا کر دیتی ہے۔ تاریخ میں بڑے بڑے محلات کا صرف ذکر رہ گیا ہے۔ کھنڈرات بھی باقی نہیں رہے۔ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ وقت کے ساتھ بڑے بڑوں کی لاشیں بھی خاک میں مل کر خاک ہوجاتی ہیں۔ وقت کی خاک، شاہ و گدا میں کوئی تمیز نہیں کرتی ۔ میر تقی میرؔ نے کہا تھا۔

کل پاؤں میرا کاسۂ سر پر جو جا پڑا

یکسر وہ استخوانِ شکستوں سے چُو ر تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بےخبر

میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا

کئی ماہ پہلے میں نے نیب کے چیئرمین سے پوچھا تھا کہ نیب نواز شریف سے پلی بارگین کیوں نہیں کرتا تو چیئر مین نیب نے اپنے ’’سرِ پُر غرور‘‘ کو اٹھا کر کہا تھا کہ ہم نے اُس کے لئے نواز شریف سے پچیس بلین ڈالر کا مطالبہ کیا ہے۔ میں نے پریشان ہو کر پوچھا کیا اس کے پاس اتنی دولت ہو سکتی ہے ؟تو وہ کہنے لگے اس کے اثاثے ایک سو بلین ڈالر سے زیادہ مالیت کے ہیں۔ 

کتنی عجیب بات ہے کہ اُسی نواز شریف کے ’’سرِ پُرغرور‘‘ کی سلامتی کےلئے اس وقت شریف فیملی سات ارب کے شورٹی بانڈ بھر کرنے کو تیار نہیں۔ عطاء الحق قاسمی لکھتے ہیں ’’ہم کہیں خدانخواستہ میاں صاحب کو کھو نہ بیٹھیں‘‘۔ اس کے باوجود شہباز شریف ابھی تک ایک اسٹامپ پیپر لکھنے پر راضی نہیں حالانکہ نون لیگ کے ایم پی اے بیچارے مرزا محمد جاوید نے اپنی تمام جائیداد نواز شریف کے نام کرا دی۔ 

نون لیگ کے کئی اور کارکن بھی اس کام کےلئے تیار کھڑے ہیں مگر شریف فیملی کا موقف ہے کہ یہ بات اخلاقی طور پر درست نہیں۔ ارے بھئی نواز شریف جب ایک سزایافتہ قیدی ہیں تو اخلاقیات کیسی۔ قانون کی بات کریں اگرچہ اپنے لئے تو یہ قانون بھی ناقابلِ قبول ہے کہ ہم دو نہیں ایک پاکستان کے نام لیوا ہیں۔ بہرحال اس تبدیلی سے تو کوئی انکار نہیں کہ تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے ملک کے امیر ترین شخص کو آخر کار عمران خان نے نمونہِ تبدیلی بنا دیا ہے۔

عبرت آموز ہے دربارِ شب و روز کا تاج

طشتِ تاریخ میں سر رکھے ہیں دستار کے ساتھ

مزید خبریں :