’مولانا کو بتایا گیا کہ عمران کے اسٹیبلشمنٹ سے بہترین تعلقات ہیں‘

ان کی 13 نومبر کو خارجی حکمت عملی ویسی ہی پراسرار رہی: فائل فوٹو

کراچی: مولانا فضل الرحمان کا ساتھ اصل میں ہاتھ کس نے کیا ہے؟ اکتوبر 27 کو انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے استعفیٰ لینے اور ملک میں تازہ انتخابات کے اعلان کیلئے اسلام آباد کی تنہا پرواز لی۔

دو ہفتوں میں انہیں احساس ہوگیا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیاہے جیسا کہ نا تو انہیں ان کے حزب اختلاف کے اتحادی بھرپور قوت کے ساتھ ملے اور نا ہی حکومت بے چین نظر آئی۔

ان کی 13 نومبر کو خارجی حکمت عملی ویسی ہی پراسرار رہی جیسے وفاقی دارالحکومت میں ان کا داخلہ جیسا کہ ان کی جماعت جے یو آئی ف پلان بی کے طور پر ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج اور دھرنے دے رہے ہیں۔ 

تاہم سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صحت اور بیرون ملک سفر کے حوالے سے گزشتہ ہفتے کی سیاسی پیشرفت کے باعث پلان کا دوسرا حصہ اب تک میڈیا کی زیادہ توجہ حاصل نہیں کرپایا۔

ان کی تین ماہ کی تیاریوں اور ایک درجن ملین مارچ کے بعد مولانا نے دو مواقع گنوا دئیے۔ پہلا یہ کہ انہیں اپنے اتحادیوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی مارچ یا اپریل 2020 تک اسلام آباد مارچ ملتوی کرنے کی تجویزمان لینی چاہئے تھی۔ دوسرا یہ کہ انہیں عدالتی کمیشن یا پارلیمانی کمیشن سے با آسانی فیصلہ کروانا چاہئے تھا جس کیلئے حکومت بھی تیار تھی اور حتیٰ کہ تازہ انتخابات کیلئے بھی تیار تھی اگر کمیشن انتخابات 2018 دھاندلی زدہ قرار دے دیتا، اس کا مطلب بھی وزیر اعظم عمران خان کا استعفیٰ تھا۔

ایک بات تو یقینی ہے کہ مولانا کا مارچ ون مین، ون پارٹی شو تھا اور مستقبل کی سیاسی پیشرفت اس بات کا تعین کریں گی کہ آیا مولانا کے ساتھ ہاتھ ہوا یا اس منظر کے پیچھے اصلی دماغ بے نقاب ہوجائے گا۔

جس طرح سے مولانا نے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی سے مذاکرات کئے، اس سے بھی اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا اور آخر میں وہ کوئی قابل قبول ’فیس سیونگ‘(آبرو کا پاس) چاہتے تھے۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدریوں نے مولانا کو ملاقاتوں میں واضح طور پر بتادیا تھا کہ عمران کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں اور یہی وجہ تھی کہ جس کی وجہ سے وہ مطمئن دکھائی دئیے اور اپنی جماعت کے رہنماؤں کو کہا کہ وہ پریشان نہ ہوں، ہم کہیں نہیں جارہے۔

جے یو آئی ف اور مسلم لیگ ق نئے الائنس کا حصہ ہوسکتے ہیں جیسا کہ ان کی ملاقاتوں میں موجودہ بحران سے بھی کہیں زیادہ باتیں ہوئی تھیں۔ اس سب کی وجہ سے تنہا پرواز کا فوری خاتمہ ہوا اور حقیقت یہی باقی رہتی ہے کہ یہ ناصرف مولانا کیلئے بلکہ پوری حزب اختلاف کیلئے دھچکا تھا جو بغیر شامل ہوئے بھرپور قوت سے مولانا کی سرگرمیاں دیکھ رہی تھی۔

یہ صرف مولانا ہی جانتے ہیں کہ انہیں اس صورتحال میں کس نے دھکیلا اور کس نے ان کے ساتھ ہاتھ کیا لیکن اگر کسی نے واقعی اس حالیہ سیاسی گیم سے کچھ حاصل کیا ہے تو وہ گجرات کے چوہدری ہیں جو ناصرف مولانا سے نمٹے بلکہ نواز شریف کے بیرون ملک جانے کیلئے بھی پوزیشن لی۔

پلان اے کی طرح ان کے پلان بی نے بھی ابھی تک ملک میں کوئی سیاسی اثر نہیں دکھایا۔ مجھے شک ہے کہ یہ طویل عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے اور کوئی بھی ان کے پلان سی کے بارے میں نہیں جانتا۔ جیسا کہ نواز شریف منگل کو لندن جارہے ہیں، توجہ کا مرکز پھر سے مولانا ہوسکتے ہیں۔ بے شک 40 سالہ سیاست میں یہ مولانا کا سب سے بڑا سیاسی جوا تھا۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سیاسی پنڈت کیا کہتا ہے، وہ حکومت کے برعکس خود کو اور حزب اختلاف کو نقصان پہنچانے کی وجہ بنے۔ اگر مولانا کے آزادی مارچ کے پیچھے کوئی اور نہیں تھا یا کسی نے مولانا کو مشورہ دیا تھا اور پھر وہ پیچھے ہٹ گیا یا مولانا سے ہاتھ کر گیا تھا تو اس سے جے یو آئی کو مستقبل میں مزید نقصان پہنچے گا اور انہیں اپنے ہزاروں ماننے والے افراد کی سرشار قوت کو مطمئن کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔

اس مارچ سے مولانا کو جو کریڈٹ مل سکتا ہے وہ اپنے درجن بھر ملین مارچ کے ساتھ سیاسی موبلائزیشنز ہے۔ گزشتہ 13 دنوں میں وہ یقیناً حزب اختلاف کی مرکزی شخصیت رہے اور مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سے آگے نظر آئے جو مولانا کے پلان کی پراسراری کے باعث الجھن میں دکھائی دیں۔ دونوں جماعتوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ اگر وہ پوری قوت کے ساتھ مولانا کے ساتھ جاتے بھی ہیں تو تب بھی وہ حکومت نہیں گراسکیں گے اور محاذ آرائی تیسری پارٹی کی مداخلت کا باعث بن سکتی ہے۔

یوں حکومت کو ملک میں قیمتوں میں شدید اضافے، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، سیاسی عدم استحکام اور معاشی بے یقینی کے باوجود اب تک حزب اختلاف کی جانب سے پارلیمان اور باہر دونوں جگہ کسی بامعنی سیاسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔

سینیٹ میں اکثریت کے باوجود وہ عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے چیئرمین سینیٹ تک کو نہیں ہٹا سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جے یو آئی ف نے پارلیمان میں اپنی نمائندگی کے ساتھ یا بغیر مضبوط سیاسی مذہبی قوت کے طور پر اپنی تنظیمی صلاحیت، تنظیم اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے لیکن پہلی مرتبہ مولانا نے شاید فیصلہ کن مہمکے آغاز کے وقت میں غلطی کردی اور وہ بھی کسی فرد کی جانب سے عملی مدد کے بغیر۔

مزید خبریں :