طاقتور مشرف کے فیصلے میں حکومت کی رکاوٹ بننے کی کوشش

فائل فوٹو: پرویز مشرف

اسلام آباد: جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کے مقدمے کا سامنا ہے اور قانون کے مطابق یہ ضروری ہے کہ کیس کا ٹرائل اور فیصلہ تیز رفتار انداز سے سنایا جائے، لیکن تقریباً 6؍ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کیس کا تاحال فیصلہ سامنے نہیں آ سکا۔

پرویز مشرف کے ٹرائل کیلئے قائم کیا جانے والی خصوصی عدالت نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ اس کیس کا فیصلہ 28؍ نومبر کو سنائے گی۔ لیکن پیر کے دن عمران خان حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرکے اسپیشل کورٹ کو فیصلہ سنانے سے روکنے کی پٹیشن دائر کر دی ہے۔

پرویز مشرف نے اپنے وکیل کے توسط سے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرکے درخواست کی ہے کہ ٹرائل روکا جائے۔ فوجداری ترمیمی قانون (اسپیشل کورٹ) ایکٹ 1976ء کے تحت اسپیشل کورٹ کے روبرو کوئی ٹرائل نہیں روکا جائے گا ماسوائے اسپیشل کورٹ یہ رائے قائم کرلے کہ انصاف کیلئے ٹرائل روکنا ضروری ہے، اور بالخصوص، صرف اسلئے کسی کا ٹرائل نہیں روکا جا سکتا کہ ملزم بیماری کی وجہ سے غیر حاضر ہو، یا اگر ملزم کا وکیل غیر حاضر ہو، یا ملزم کا رویہ ایسا ہو کہ جس سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہو، لیکن ایسے کسی بھی معاملے میں اسپیشل کورٹ ضروری اقدامات کرتے ہوئے ٹرائل جاری رکھ سکتی ہے اور ملزم کیلئے وکیل مقرر کر سکتی ہے۔

لیکن اس واضح قانونی پوزیشن کے باوجود مشرف کے ٹرائل کو 6؍ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ سنگین غداری (سزا) ایکٹ 1973ء کے سیکشن تین اور پانچ کے تحت فوجداری شکایت نمبر 2013/1، اور فوجداری ترمیمی قانون اسپیشل ایکٹ کے سیکشن 5؍ کے تحت جنرل (ر) پرویز مشرف کیخلاف 17؍ دسمبر 2013ء کو مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔

اگلے ماہ کی 17؍ تاریخ کو اس ٹرائل کو 6؍ سال مکمل ہو جائیں گے، اور اگر اسپیشل کورٹ ایکٹ 1976ء کے قانون کے تناظر میں اس صورتحال کو دیکھا جائے تو یہ بہت ہی طویل عرصہ ہے۔

اسپیشل کورٹ نے 24؍ دسمبر 2013ء کو پرویز مشرف کو حاضر ہونے کیلئے نوٹس جاری کیا تھا۔ تاہم، طلبی کے نوٹس جاری کیے جانے کے باوجود، اقتدار سے نکال باہر کیا جانے والا آمر مختلف حیلے بہانے کرتے ہوئے عدالت میں پیش نہ ہوا تاوقتیکہ 2؍ جنوری 2014ء کو دوپہر 12؍ بجکر 15؍ منٹ پر یہ اعلان کیا گیا کہ اگرچہ ملزم سخت سیکورٹی حصار میں اپنے گھر سے عدالت کیلئے روانہ ہوا تھا لیکن راستے میں اسے دل کی تکلیف ہوئی اور طبی مدد کیلئے وہ راستے سے ہی اسپتال روانہ ہوگیا۔

اسپیشل کورٹ نے یکم جنوری کو واضح ہدایات جاری کیں کہ اگر ملزم نے 2؍ جنوری کو عدالت میں حاضری نہ دی تو عدالت اس کی حراست کے متعلق کوئی بھی فیصلہ قانون کے مطابق کرے گی۔ 2؍ جنوری سے 31؍ مارچ تک ملزم بدستور مسلح افواج کے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی میں داخل رہا حالانکہ ملزم کو پنسلن کا انجکشن لگایا گیا اور نہ ہی کوئی گولی کھلائی گئی، کوئی ٹیسٹ بھی نہیں کیے گئے۔

ملزم کی طرف سے عدالت میں بیان جمع کرایا گیا کہ انجیوگرافی کی وجہ سے حالت ایسی نہیں کہ عدالت میں پیش ہو سکے کیونکہ صحت کو ممکنہ خطرات لاحق ہیں۔ 31؍ مارچ تک ملزم کی جانب سے 13؍ متفرق درخواستیں دائر کی گئیں ا ور عدالت نے انہیں خارج کر دیا۔

آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی راولپنڈی، جہاں ملزم داخل تھا، سے کہا گیا کہ وہ ملزم کی صحت اور حالت کے متعلق رپورٹ جمع کرائے اور 31؍ جنوری 2014ء کے آرڈر میں سوالات اور جوابات شامل ہیں۔ 31؍ مارچ کو ملزم جنرل (ر) پرویز مشرف پہلی اور آخری مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے اور نتیجتاً ان پر سنگین غداری کی فرد جرم عائد کر دی گئی۔

عدالت نے ملزم جنرل (ر) پرویز مشرف کو زیر حراست نہیں رکھا لیکن یہ نشاندہی کی کہ باوجود اس کے کہ ملزم کو بوقت ضرورت عدالت میں پیش ہونا ہے اور وہ جائز وجوہات کی بناء پر حاضری سے استثنیٰ لے سکتے ہیں۔ استغاثہ کا مقدمہ 18؍ ستمبر 2014ء کو جاری کردہ فیصلے کے مطابق بند کر دیا گیا اور قانون کے مطابق اگلا مرحلہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 342؍ کے تحت ملزم کا معائنہ تھا۔

اس مرحلے پر (موجودہ وزیر قانون) فروغ نسیم نے پرویز مشرف کے وکیل کی حیثیت سے 536؍ دیگر ملزمان کو پیش کرنے کی درخواست کی۔ 21؍ نومبر 2014ء کو حکم جاری کرتے ہوئے اسپیشل کورٹ نے استغاثہ کو ہدایت کی کہ ترمیم شدی شکایت دائر کی جائے اور اس میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز، وفاقی وزیر زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو شامل کیا جائے۔

ان تین افراد نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے جبکہ جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، عدالت نے 26؍ فروری 2016ء کو اپنے آرڈر میں کہا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف اس کیس میں واحد ملزم ہیں اور اس ضمن میں اسپیشل کورٹ کا آرڈر کالعدم قرار دیدیا گیا اور عدالت کو ہدایت کی گئی کہ ٹرائل کی رفتار میں تیزی لائے اور کیس کو غیر ضروری طور پر التوا نہ لایا جائے۔

26؍ فروری 2016ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد، اسپیشل کورٹ نے 8؍ مارچ 2016ء کو ملزم پرویز مشرف کو ہدایت دی کہ وہ صبح ساڑھے 9؍ بجے 31؍ مارچ کو عدالت میں پیش ہوں تاکہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 342؍ کے تحت ان کا بیان ریکارڈ کیا جا سکے۔ اس تاریخ سے قبل ہی ملزم جرنیل عدالت کے مذکورہ بالا حکم کے باوجود ملک چھوڑ کر روانہ ہو گیا اور قانون کی نظر میں مفرور بن کر رہنے لگا۔

پرویز مشرف کی غیر موجودگی میں، اسپیشل کورٹ دو سے زائد مرتبہ دوبارہ تشکیل دی گئی۔ مشرف سے عدالت میں پیش ہونے کیلئے کہا جاتا رہا لیکن وہ پیش نہ ہوئے۔ اور اب جب اسپیشل کورٹ طویل تاخیر کے بعد اپنا فیصلہ سنانے جا رہی ہے تو عمران خان حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کردی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ اسپیشل کورٹ کو 28؍ نومبر کو فیصلہ سنانے سے روکا جائے۔

حال ہی میں چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ عدلیہ کے سامنے کوئی شخص طاقتور نہیں، عدالت نہ صرف ایک وزیراعظم کو نا اہل قرار دے چکی ہے بلکہ ایک کو مجرم بھی قرار دے چکی ہے اور اب جنرل (ر) مشرف کے کیس کا فیصلہ بھی سنانے جا رہی ہے۔

مزید خبریں :