سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا۔

آرمی جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت میں توسیع اور تقرری کے خلاف درخواست گزار ریاض حنیف راہی نے دائر کی تاہم درخواست گزار خود پیش نہیں ہوئے اور انہوں نے عدالت سے درخواست واپس لینے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔

چیف جسٹس نے درخواست کو ازخود نوٹس میں تبدیل کردیا

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ درخواست کو (3) 184 کے تحت ازخود نوٹس میں تبدیل کررہے ہیں۔

یہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کا دوسرا از خود نوٹس ہے۔ اس سے قبل انہوں نے 21 مارچ 2019 کو بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر کی مبینہ خود کشی سے قبل لکھے گئے خط پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

اٹارنی جنرل خود عدالت میں پیش ہوئے

عدالت نے کہا کہ اس درخواست کو 184تھری کے تحت سن رہے ہیں کیونکہ درخواست میں جو سوال اٹھایا گیا کہ یہ عوامی مفاد کا سوال ہے لہٰذا یہ درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی ہے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خود عدالت میں پیش ہوئے اور متعدد دستاویزات پیش کیں۔

اس پر عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی مدد سے ان دستاویزات کا جائزہ لیا اور نوٹس کیا کہ سمری ابتدائی طو رپر وزارت دفاع نے بھجوائی جو آرمی چیف کی تین سال کے لیے تقرری اور توسیع کے لیے بھجوائی گئی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ یہ تقرری میں آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت صدر کا اختیار ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل سے متعدد سوالات پوچھے اور انہوں نے آرمی ریگولیشن رولز کا حوالہ دیا جس کے مطابق آرمی آفیسر کی ریٹائرمنٹ کے بعد عارضی طور پر اس کی مدت میں توسیع کی جاسکتی ہے۔

اس معاملے میں جو کیا گیا وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے گھوڑا گاڑی کے آگے گاڑی لگانا اور گھوڑے کو پیچھے باندھنا: چیف جسٹس پاکستان

عدالت نے مزید کہا کہ اسی ریگو لیشن پر اٹارنی جنرل نے انحصار کیاکہ وفاق کے پاس اختیار ہے وہ آرمی چیف کی سروس کو بڑھاسکتے ہیں، ریٹائرمنٹ سے پہلے ایسا فیصلہ عوامی مفاد میں کیا جاسکتا ہے، ریگولیشن 255 کا جائزہ لینے کے بعد بادی النظر میں یہ شق ریٹائرمنٹ کے بعد عمل میں لائی جاسکتی ہے جس کے ذریعے ریٹائرڈ آرمی افسر کی ریٹائرمنٹ معطل کرکے مدت میں توسیع کی جاسکتی ہے۔

عدالت کاکہنا تھا کہ اس معاملے میں جو کیا گیا وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے گھوڑا گاڑی کے آگے گاڑی لگانا ور گھوڑے کو پچھے باندھنا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسے تو مسلح افواج میں کام کرنے والا ہر شخص تقرری چاہے گا۔

عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری ریجنل سیکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے، اس میں سیکیورٹی صورتحال کی اصطلاح جو استعمال کی گئی وہ مبہم ہے، ، مسلح افواج کسی بھی خطرے کی صورت میں باڈی کے طور پر کام کرتی ہیں، کوئی اکیلا کام نہیں کرتا، اگر یہ روایت ڈالی گئی تو پھر مسلح افواج کا ہر شخص اہم ہے اس کی مدت میں توسیع کرنا ہوگی۔

 اگر یہ روایت ڈالی گئی تو پھر مسلح افواج کا ہر شخص اہم ہے: چیف جسٹس

عدالت نے کہاکہ درخواست میں موجودہ آرمی چیف اور دیگر کو فریق بنایا گیا لہٰذا عدالت جنرل باجوہ اور دیگر کو نوٹس جاری کرتی ہے۔

اس دوران عدالت نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آرمی چیف کی مدت کب ختم ہورہی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 28 نومبر آخری تاریخ ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اس کی سماعت کب رکھیں جس پر اٹارنی جنرل نے بدھ کا روز تجویز کیا۔

اٹارنی جنرل کی تجویز پر عدالت نے کہا کہ ہم یہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا حکم معطل کرتے ہیں، وزیراعظم اس تقرری کے مجاز نہیں یہ صدر کا اختیار ہے۔

وزیراعظم اس تقرری کے مجاز نہیں یہ صدر کا اختیار ہے:  جسٹس کھوسہ

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ وزیراعطم نے صدر کو سمری بھجوائی لیکن بعد میں پتا چلا اس کے لیے کابینہ کی منظوری ضروری ہے جس کے بعد سرکولیشن کے ذریعے کابینہ ارکان کو سرکولیٹ کیا گیا جس میں 11 ارکان نے اس معاملے پر آمادگی کا اظہار کیا جب کہ 14 ارکین نے خاموشی اختیار کی۔

عدالت نے کہا کہ یہ سارا عمل الٹ کیا گیا، پہلے کابینہ کی منظوری اور پھر سارا معاملہ ہونا چاہیے تھا، پھر وزیراعظم صدر کو ایڈوائس کرتے ہیں۔

وفاق، وزارت دفاع اورآرمی چیف کو نوٹس جاری 

بعد ازاں عدالت نے آرمی چیف کی تقرری و توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے وفاق، وزارت دفاع اورآرمی چیف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔

واضح رہےکہ وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی تھی اور اس حوالے سے نوٹیفکیشن 19 اگست کو جاری کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کے ججز کے ریمارکس

 سپریم کورٹ کے حکم میں لکھا ہے کہ حکومت کی دستاویز کے مطابق 19 اگست کو وزیر اعظم نے آرمی چیف کی دوسری مدت کے لیے تقرری کا حکم دیا جبکہ آئین کے تحت تقرری کا اختیار صدر کا ہے ۔ یہ غلطی فوری نوٹ کی گئی اور 19 اگست کو ہی وزیر اعظم کی طرف سے مدت میں توسیع / دوبارہ تقرری کی سمری صدر کو بھجوائی گئی جس کی صدر نے منظوری دی ، پھر پتا چلا کہ صدر یہ سمری کابینہ کی منظوری کے بعد ہی منظور کرسکتے ہیں اور اگلے روز 20 اگست کو کابینہ کی منظوری کے لیے سمری بھجوائی گئی اور کابینہ کے 25 میں سے 11 اراکین نے اس کی منظوری دی لیکن کابینہ کی اکثریت نے اس کی منظوری نہیں دی پھر کابینہ کی طرف سے لی گئی نام نہاد منظوری وزیر اعظم اور صدر کو نہیں بھجوائی گئی۔

یہ اندازہ کیسے لگایا گیا کہ تین سال تک ہنگامی حالات رہیں گے؟ چیف جسٹس

سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آرمی چیف کی توسیع کی مدت کیسے فکس کرسکتے ہیں؟ یہ اندازہ کیسے لگایا گیا کہ تین سال تک ہنگامی حالات رہیں گے؟

سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وفاقی کابینہ کے 25 میں سے صرف 11 وزراء نے آرمی چیف کی مدت میں توسیع کی منظوری دی، جمہوریت میں یہ فیصلے اکثریت رائے سے ہوتے ہیں، جن ارکان نے جواب نہیں دیا انہوں نے 'نہ' بھی تو نہیں کی، کیا حکومت کابینہ ارکان کی خاموشی کو ’ہاں‘ سمجھتی ہے؟

مزید خبریں :