27 نومبر ، 2019
اسلام آباد: حالیہ وقتوں میں ’’جوڈیشل ایکٹو ازم‘‘ طرز کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ جب کوئی سازشی شخص گرما گرم سیاست اور آئینی تنازعات پر پٹیشن لے کر آتا ہے جو بحث چھیڑنے یا اسے ہوا دینے کے بعد اچانک غائب بھی ہو جاتا ہے۔
منگل کو وہی کچھ ہوا جب ایک عادی درخواست گزار نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی عہد سپہ سالاری میں یقینی توسیع کو شک و شبہ میں ڈال دیا۔ یہ ریاض راہی ہے جس نے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کو چیلنج کیا اور بعدازاں درخواست واپس لینے کی درخواست دے دی لیکن چیف جسٹس نے اس درخواست کو مسترد کر دیا اور کہا کہ یہ درخواست آئین کے آرٹیکل184(3) کے تحت عوامی مفاد کے زمرے میں آتی ہے۔
اس شخص ریاض راہی ہی نے اپریل2018ء میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بحیثیت جج سپریم کورٹ تقرری کو چیلنج کیا تھا۔ اس وقت آرمی چیف کے خلاف درخواست کا وقت اور وجہ بڑی اہم ہے۔
معمول کے تحت جنرل باجوہ کو کل28 نومبر2019ء کو ریٹائر ہو جانا تھا۔ اسی طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے خلاف درخواست دائر کرنے کا وقت اور اگست 2009ء میں چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کی حیثیت سے تقرری کی افادیت کو گھٹانا، ایک جج کی حیثیت سے ان کی ساکھ متاثر کرنے کی کوشش تھی جنہیں قانونی برادری میں انہیں دیانت دار جج تصور کیا جاتا ہے۔
اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم جوڈیشل کونسل اور عدالت عظمیٰ دونوں جگہ ٹرائلز کا سامنا ہے۔ مارچ 2018ء میں ریاض راہی نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف توہین عدالت کی دو درخواستیں دائر کیں۔ دسمبر2013ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو چیلنج کرنے والی ان کی پٹیشن مسترد کی جو 10 جولائی2017ء کو سابق صدر پرویز مشرف پر انتہائی غداری کا مقدمہ چلانے کے لئے دائر کی گئی تھی۔ یہ تمام درخواستیں مسترد ہوئیں۔
ریسرچ سے معلوم ہوا کہ ریاض راہی ایک عادی عدالتی درخواست گزار ہیں۔ عدالتوں نے ان پر کم از کم تین بار جرمانے عائد کئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے2014ء میں ریاض راہی پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ ہی کے جسٹس اطہر من اللہ نے جوڈیشل پالیسی اور انتخابی نظام کو چیلنج کرنے کی غیر سنجیدہ درخواستیں دائر کرنے پر 10 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا۔
لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بنچ کے جسٹس شیخ حاکم علی نے 2005ء میں توہین عدالت پر ریاض راہی کو ایک ماہ قید کی سزا سنائی اور 30ہزار روپے جرمانہ عائد کیا۔
دوران سماعت راہی نے معزز جج سے بدتمیزی کی تھی۔ مارچ 2010ء میں انہوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس غلام ربانی اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی بحالی کو چیلنج کیا لیکن بعدازاں ان کو عدالت عظمیٰ کی عمارت میں داخلے سے عارضی طور پر روک دیا گیا۔ انہوں نے رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی کے الزامات کی تحقیقات کے لئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے حکم پر قائم کمیٹی کے خلاف بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔
ریاض راہی کا نقطہ نظر جاننے کے لئے اس نمائندے نے ان سے رابطے کی متعدد بار کوشش کی لیکن وہ دستیاب نہیں ہوئے۔ یہ کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ ایسے متعدد عادی عدالتی درخواست گزار موجود ہیں۔ مخدوم نیاز انقلابی نے سیاستدانوں کے خلاف 10 غیر سنجیدہ درخواستیں دائر کیں جن میں نواز شریف کے خلاف درخواستیں بھی شامل ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے غیر سنجیدہ درخواست دائر کرنے پر شاہد اورکزئی پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جب انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منظور علی شاہ کی پوزیشن کو چلینج کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے مولوی اقبال حیدر کے سپریم کورٹ میں داخلے پر عائد 5 سالہ پابندی میں توسیع کی۔ ان پر غیر ضروری درخواستوں کے ذریعے عدالت کا وقت ضائع کرنے کا الزام تھا۔
سینئر ایڈووکیٹ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ منگل کو دائر پٹیشن نے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں نئی نظیر قائم کی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی درخواست ہے، ایسے معاملات سے متعلق درخواستیں اعلیٰ عدالتوں میں موجود ہیں۔ اس درخواست کے دائر کئے جانے کا وقت بہت اہم ہے۔ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔
سینئر وکیل بابر ستار نے ٹوئٹ کیا کہ سپریم کورٹ کے معطلی حکم کے بعد حکومت اور آرمی چیف کو اس ہنگامی حالت یا نوعیت کا جواز دینا پڑے گا جس کے تحت آرمی چیف کے عہدے کی مدت میں تین سال کی توسیع دی گئی۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ حیران کن ہے کیونکہ سمجھا یہ جا رہا تھا کہ سرکاری ملازمین کے لئے قاعدے قوانین آرمی چیف پر لاگو نہیں ہوتے۔ بیرسٹر ظفراللہ خان نے بتایا کہ سابق حکومت نے نیا قانون ’’کاسٹ آف لٹی گیشن ایکٹ2018‘‘ متعارف کرایا تھا جس کا مقصد غیر ضروری اور غیر سنجیدہ مقدمات دائر کئے جانے کو روکنا تھا جس میں مقدمہ ہارنے والے کو حریف کے بھی تمام اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے۔