28 نومبر ، 2019
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع کی منظوری دے دی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آرمی چیف کی موجودہ تقرری 6 ماہ کیلئے ہوگی، وفاقی حکومت نے یقین دلایا ہے کہ 6 ماہ میں قانون سازی کی جائے گی، آرمی چیف کی مدت اور مراعات سے متعلق 6 ماہ میں قانون سازی کی جائے گی۔
عدالت نے مختصر فیصلے میں کہا کہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑتے ہیں، پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی تقرری سے متعلق قانون سازی کرے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نئی قانون سازی تک اپنے عہدے پر فرائض انجام دیں گے، آج عدالت میں پیش کیا جانے والا نوٹی فکیشن 6 ماہ کیلئے ہوگا۔
آج ہونے والی سماعت میں اٹارنی جنرل پاکستان نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق نئی سمری عدالت کے روبرو پیش کی جس کا عدالت نے مکمل جائزہ لیا۔
سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا حکومت نے ایک مؤقف سے دوسرا مؤقف اختیار کیا، حکومت عدالت میں آرٹیکل 243 ون بی پر انحصار کررہی ہے اور عدالت نے آرٹیکل 243 بی کا جائزہ لیا، حکومت آرمی چیف کو 28 نومبر سے توسیع دے رہی ہے۔
خیال رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 28 نومبر کی رات 12 بجے مکمل ہورہی تھی اور وفاقی حکومت نے 19 اگست کو جاری نوٹی فکیشن کے ذریعے 3 سال کی نئی مدت کیلئے آرمی چیف کی تقرری کی تھی جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔
آرمی چیف کی موجودہ تقرری 6 ماہ کے لیے ہوگی:عدالتی فیصلہ
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آرمی چیف کی موجودہ تقرری 6 ماہ کے لیے ہوگی، وفاقی حکومت نے یقین دلایا ہے کہ 6 ماہ میں قانون سازی کی جائے گی جب کہ آرمی چیف کی مدت اور مراعات سے متعلق 6 ماہ میں قانون سازی کی جائے گی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑتے ہیں، پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی تقرری سے متعلق قانون سازی کرے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہےکہ عدالت نے قانون سازی کے کیے چھ ماہ کا وقت دیا ہے،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نئی قانون سازی تک اپنے عہدے پر فرائض انجام دیتے رہیں گے اور آج عدالت میں پیش کیا جانے والا نوٹی فکیشن 6 ماہ کیلئے ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی جب کہ اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان اور آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم نے عدالت میں دلائل دیے۔
سماعت کے آغاز پر عدالت نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن طلب کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے دستاویزات بھی پیش کریں، وہ جب ریٹائر ہوئے تو اس نوٹی فیکیشن کے کیا الفاظ تھے وہ بھی پیش کریں۔
بتایا گیا کہ جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اگرجنرل ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی: چیف جسٹس پاکستان
عدالت نے کہا کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کو ریٹائرمنٹ کے بعد کتنی پینشن ملی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیےکہ ہمیں بتایا گیا کہ جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اگرجنرل ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی۔
اس کے بعد عدالت نے سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کردیا جس کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔
سماعت کے دوبارہ آغاز پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کر دی گئی ہے، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے کیسے مختلف ہے؟
آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہوگا، اب ہونے والی تعیناتی درست کیسے ہے؟ چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نئی تعیناتی 243 (1) بی کے تحت کی گئی ہے، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیےکہ آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہوگا، اب ہونے والی تعیناتی درست کیسے ہے؟ سمری میں تو عدالتی کارروائی کا بھی ذکر کردیا گیا ہے، آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، اپنا کام خود کریں، ہمیں درمیان میں کیوں لاتے ہیں، عدالت کا نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نہ کہہ سکیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ہدایت کی کہ سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تعیناتی قانونی ہے یا نہیں وہ جائزہ لیں گے، آج سے تعیناتی 28 نومبر سے کردی، تعیناتی اورتوسیع سے متعلق آرمی ریگولیشنزکی کتاب کو چھپا کرکیوں رکھا گیا، اس کتاب پرلکھا ہے کوئی غیرمتعلقہ شخص پڑھ نہیں سکتا، کیوں آپ نے اس کتاب کو سینے سے لگا کر رکھا ہوا تھا، بھارت اور دیگر ممالک میں آرمی چیف کی تعیناتی اورمدت واضح ہے، اب عدالت میں معاملہ پہلی بار آگیا ہے تو واضح ہونا چاہیے۔
دورانِ سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی قانون کے مطابق ہونی چاہیے، قانون میں تعیناتی کی مدت کہیں نہیں لکھی ہوئی۔
اٹارنی جنرل نے اس پر مؤقف اپنایا کہ اگرمدت مقرر نہ کریں تو تاحکم ثانی آرمی چیف تعینات ہوگا، مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل ریٹائر ہوجاتا ہے۔
ہم نے آئین وقانون کو کیا دیکھا ہمارے خلاف پراپیگنڈہ شروع ہوگیا، کہہ دیا گیا کہ یہ تینوں جج سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں: چیف جسٹس
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کل آپ کہہ رہے تھے جنرل ریٹائر نہیں ہوتا، واضح ہونا چاہیے جنرل کو پینشن ملتی ہے یا نہیں، پارلیمنٹ سے بہتر کوئی فورم نہیں جو سسٹم ٹھیک کرسکے۔
اس موقع پر بینچ کے رکن جسٹس مظہر میاں خیل نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی طے کرلیا جائے کہ آئندہ توسیع ہوگی یا نئی تعیناتی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آئین و قانون کو کیا دیکھا ہمارے خلاف پراپیگنڈہ شروع ہوگیا، کہہ دیا گیا کہ یہ تینوں جج سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں، الزام لگایا گیا کہ ہم بھارت کی ایما پر کام کررہے ہیں، کہا گیا کہ یہ ففتھ جنریشن وار ہے، ہمیں پوچھنا پڑا کہ یہ ففتھ جنریشن وار ہوتی کیا ہے، کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے ججز کو بھارتی چینلز پر چلایا جارہا ہے، آئینی اداروں کے بارے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس کھوسہ کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا لیکن سوشل میڈیا کسی کے کنٹرول میں نہیں۔
آپ 3 سال کے لیے توسیع دے رہے ہیں، کل کوئی قابل جنرل آئے گا تو پھر کیا اسے 30 سال کے لیے توسیع دیں گے؟ جسٹس کھوسہ
چیف جسٹس پاکستان نے انتہائی اہم ریمارکس دیے کہ آئینی اداروں کے بارے میں ایسا نہیں کرنا چاہیے، آپ 3 سال کے لیے توسیع دے رہے ہیں، کل کوئی قابل جنرل آئے گا تو پھر کیا اسے 30 سال کے لیے توسیع دیں گے؟
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید کہا کہ آرمی ایکٹ میں ابہام ہے، آپ رولز میں ترمیم کرتے رہے ہیں، پھر ہم نے ایڈوائزری کردار لکھ دیا۔
عدالت کی جانب سے نوٹی فکیشن طلب کرنے پر جنرل ریٹائرڈ کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع اور جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات بھی عدالت میں پیش کی گئیں۔
نوٹی فکیشن پڑھ کر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس نوٹی فکیشن میں بھی نہیں لکھا کہ توسیع کس نے دی، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹی فکیشن سے پہلے سمری تیارکی جاتی ہے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ قانون بنانے میں کتنا وقت لیں گے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون بنانے کےلیےہمیں 3 ماہ کا وقت چاہیے۔
قانونی سازی کیلئے 3 ماہ چاہئیں تو ہم 3 ماہ کیلئے اس کی توسیع کردیتے ہیں:
چیف جسٹس پاکستان
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا عدالت نے توسیع کردی تو یہ قانونی مثال بن جائے گی، آپ نے کہا ہے کہ قانونی سازی کیلئے 3 ماہ چاہئیں تو ہم 3 ماہ کیلئے اس کی توسیع کردیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ جن جن لوگوں نے ملک کی خدمت کی وہ ہمارے لیے محترم ہیں لیکن آئین اور قانون سب سے مقدم ہے، حکومت پہلی بار آئین پر واپس آئی ہے، جب کوئی کام آئین کے مطابق ہوجائے تو ہمارے ہاتھ بندھ جاتے ہیں۔
معزز چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت کا کندھا استعمال نا کریں، آئندہ کے لیے بھی سپریم کورٹ کا نام استعمال ہوگا، آرٹیکل 243 میں 3 سال تعیناتی کا ذکر نہیں۔
آرمی چیف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ 243 میں بہتری کرلیں گے، حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ آرٹیکل 243 میں تنخواہ، الاؤنس اور دیگرچیزیں شامل کریں گے جب کہ اس کا بیان حلفی بھی دینے کے لیے تیار ہیں۔
اس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیےکہ آپ سمری سے 3 سال کی مدت ملازمت کے الفاظ حذف کریں گے۔
’آپ کی کوتاہیوں کی وجہ سے آرمی چیف کو مشاورت کیلئے آنا پڑا‘
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کی کوتاہیوں کی وجہ سے کل آرمی چیف کو مشاورت کے لیے آنا پڑا ، فوج کا کام دفاع کا ہے ، مشاورت کا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف سرحدوں کے اہم معاملات دیکھیں یا معمولی قانونی نکات پر مشاورت کریں۔
عدالت جنرل قمرجاوید باجوہ کو کام جاری رکھنے کی مشروط اجازت دینے پر رضامند
عدالت نے اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم سے 4 نکات پر مشتمل بیان حلفی طلب کرلیا اور جنرل قمرجاوید باجوہ کو کام جاری رکھنے کی مشروط اجازت دینے پر رضامندی ظاہرکردی۔
سمری سے 3 سال کی مدت بھی نکال دیں گے: چیف جسٹس پاکستان
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم 3 ماہ میں متعلقہ قانون سازی کا بیان حلفی دیں گے، آرمی چیف کے نوٹی فکیشن میں ان کی مدت ملازمت درج نہیں ہوگی، سمری میں سے 3 سال کی مدت بھی نکال دیں گے، تنخواہ اور مراعات سے متعلق چیزیں سمری سے نکال دیں، یہ کہ 6 ماہ میں قانون سازی کرلیں گے، ہم چاہتے ہیں یہ تمام رکارڈ کا حصہ ہو اور قانون درست ہونا چاہیے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا اور چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ دوپہر کو اس حوالے سے شارٹ آرڈر جاری کریں گے۔
چند گھنٹوں کے وقفے کے بعد جب فیصلہ سنانے کے لیے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کی نئی سمری سپریم کورٹ میں پیش کی۔
عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع دے دی۔
عدالتی فیصلے کے بعد صحافی نے آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم سے سوال کیا کہ کیا فیصلہ توقعات کے مطابق ہے، اس پر انہوں نے جواب دیا کہ الحمداللہ۔
گزشتہ روز عدالت نے حکومت کو حل نکالنے کے لیے آج تک کی مہلت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اٹارنی جنرل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے پر آج مطمئن نہ کر سکے تو عدالت قانون کے مطابق فیصلہ کر دے گی ۔
گزشتہ سماعت میں اٹارنی جنرل انور منصور خان کے دلائل پر چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس منصور علی شاہ نے اہم قانونی نکات اٹھائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے معاملے غفلت پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم نے نئی تقرری کی سفارش کی اور صدر نے توسیع دی،کیا لکھا ہےاور کیا بھیج رہے ہیں یہ بھی پڑھنے کی زحمت نہیں کی، سمری، ایڈوائس، نوٹی فکیشن جس طرح بنائے لگتا ہے وزارت قانون نے بہت محنت سے یہ معاملہ خراب کیا۔
اسسٹنٹ کمشنر کو ایسے تعینات نہیں کیا جاتا جیسے آپ آرمی چیف کو تعینات کر رہے ہیں: چیف جسٹس پاکستان
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ اسسٹنٹ کمشنر کو ایسے تعینات نہیں کیا جاتا جیسے آپ آرمی چیف کو تعینات کر رہے ہیں، آپ نے آرمی چیف کو شٹل کاک بنا دیا ہے، ہم آپ کو کل تک کا وقت دے رہے ہیں حل نکال لیں، بصورت دیگر ہم نے آئین کا حلف اٹھایا ہے، آئینی ذمہ داری پوری کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ کل ہم نے جو نکات اٹھائے آپ نے انہیں تسلیم کیا، اسی لیے آپ نے انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کی، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے ان غلطیوں کو تسلیم نہیں کیا۔مزید پڑھیں۔۔
عدالت کے احکامات کے بعد وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے سینیئر ارکان اور قانونی ٹیم کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے نیا مسودہ تیار کرلیا گیا۔
اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت کابینہ کے سینئر ارکان اور قانونی ٹیم کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی شرکت کی۔ مزید پڑھیں۔۔
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اہم مشاورتی اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔
وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں ہنگامی اجلاس ہوا جس میں حکومتی وزراء، ماہرین قانون اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک ہوئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے سمری میں بار بار غلطیوں پر ناگواری کا اظہار کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوی نے بھی سمری اور نوٹی فیکیشن میں فرق پر تحفظات ظاہر کیے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے اپنی ٹیم سے استفسار کیا کہ جو اعتراضات عدالت نےاٹھائے، سمری کی تیاری کے وقت یہ نکتے کیوں نظرانداز ہوئے؟
ذرائع کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے عدالتی فیصلے کے بعد غفلت کے مرتکب افسران کے خلاف کارروائی ہوگی۔