پاکستان
Time 03 دسمبر ، 2019

کارکے رینٹل کیس: کابینہ کا سابق وفاقی وزیر اور سیکریٹری کیخلاف کارروائی کا فیصلہ

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کارکے رینٹل کیس میں ملوث سابق وفاقی وزیر اور سیکریٹری کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا گیا۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کارکے رینٹل پاور منصوبے کا سیٹلمنٹ معاہدہ پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان کی مداخلت سے پاکستان پر عائد ایک ارب 20 کروڑ ڈالرز کا جرمانہ ختم ہوا۔

ذرائع کے مطابق کابینہ کو بتایا گیا کہ کارکے رینٹل کیس میں ملوث پاکستانی افسران نے اعتراف جرم کرلیا ہے اور  کیس میں ملوث وفاقی وزیر اور سیکریٹری کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ حکومت کارکے منصوبے میں سامنے آنے والی بے قاعدگیوں کی رپورٹ نیب کو پیش کرے گی تاہم بریفنگ میں کہا گیا کہ معاہدے کے مطابق کارکے کیس میں ملوث غیر ملکیوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی۔

یاد رہے کہ 2009 میں ہونے والے معاہدے کے وقت راجا پرویز اشرف وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی تھے جو بعد میں ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے جبکہ گزشتہ دنوں سابق سیکرٹری پانی وبجلی شاہد رفیع کو بھی گرفتار  کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں ترکی کی حکومت کے ساتھ بجلی کی پیداوار کے حوالے سے وزارت پانی وبجلی کے ذیلی ادارے، پاکستان الیکٹرک کمپنی (پیپکو) اور ترک کمپنی 'کارکے' کے درمیان ایک معاہدہ کیا گیا تھا۔

معاہدے کی مالیت 56 کروڑ 46 لاکھ ڈالرز تھی،معاہدے کے تحت کراچی میں کرائے کا بجلی گھر لگایا گیا تھا اور اس سے 2009 سے پیپکو کو 231 میگا واٹ بجلی فراہم ہونا تھی لیکن کارکے طے شدہ بجلی فراہم کرنے میں ناکام رہی جب کہ یہ بجلی پاکستان کو مہنگی بھی پڑ رہی تھی۔

حکومت پاکستان اس معاہدے کی رو سے ترکش کمپنی کو ماہانہ کرائے کی مد میں 94 لاکھ ڈالر ادا بھی کرتی تھی۔

اُس وقت مسلم لیگ ق کے رہنما فیصل صالح حیات اور مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے اس معاہدے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جس پر عدالت نے فیصلہ دیا کہ ترک کمپنی کے ساتھ رینٹل پاور پراجیکٹ میں شفافیت برقرار نہیں رکھی گئی اس لیے معاہدے کو منسوخ کیا جاتا ہے۔

اس معاہدے میں حکومت پاکستان کی جانب سے گارنٹی دی گئی تھی جس کے باعث ترک کمپنی نے معاہدہ منسوخ ہونے پر عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا اور پاکستان پر 2 ارب 10 کروڑ ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کیا گیا۔

پاکستان نے ثالثی عدالت میں یہ مقدمہ لڑا تاہم ستمبر 2017 میں فیصلہ اس کے خلاف آیا جس میں ورلڈ بینک کے ادارے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس نے پاکستان پر بھاری جرمانہ عائد کیا تھا۔

مزید خبریں :