Time 04 دسمبر ، 2019
پاکستان

دہشتگردی کا لیبل اور ’ریاست مدینہ‘

مرحوم نقیب اللہ محسود— فوٹو فائل

موت سے مفر ممکن نہیں لیکن اگر مقتول کو فتویٰ لگا کر مجرم اور ظالم کے طور پر بھی پیش کیا جائے تو یہ قتل در قتل یا تہہ در تہہ ظلم بن جاتا ہے۔

 معروف پشتو شاعر مطیع اللہ تراب اپنی ایک نظم میں دہشت گرد کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے مارنا ہے تو ضرور مار دیجیئے لیکن اللہ کا واسطہ کہ قتل کے وقت میرے کاندھے پر کافر کا لفظ لکھ کرفتویٰ نہ لگائیے۔ گویا وہ موت کو گلے لگانے کیلئے تیار ہے لیکن کفر کا فتویٰ سہنے کو نہیں۔ 

موت کو گلے لگانے کیلئے تیار ہے لیکن کفر کا فتویٰ سہنے کو نہیں

مرحوم نقیب اللہ محسود کے ساتھ یہ تہہ در تہہ ظلم روا رکھا گیا۔ ایک طرف وہ دو اور ساتھیوں کے ساتھ بےگناہ قتل کئے گئے دوسری طرف ان کے ماتھے پر دہشت گرد کا لیبل لگا دیا گیا اور تیسری طرف وہ کسی دہشت گرد کے ہاتھوں نہیں بلکہ ان باوردی پولیس کے ہاتھوں مارے گئے جنہیں ان جیسے شہریوں کی جان، مال اور عزت کی رکھوالی کی تنخواہ ملتی ہے۔

راؤ انوار اینڈ کمپنی کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کے ساتھ اس ظلم کے خلاف کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی تو یہ سیاست کا ایشو بن گیا۔ کراچی اور اسلام آباد میں دھرنے دئیے گئے۔ کوئی لیڈر اسلام آباد کے دھرنے میں گیا تو کوئی کراچی کے دھرنے میں لیکن پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان دونوں شہروں میں گئے اور وعدے کئے کہ وہ راؤ انوار کو سزا دلوا کر نقیب اللہ محسود جیسے لوگوں کو انصاف دلوائیں گے۔ 

عوام اور میڈیا کے احتجاج کے پیشِ نظر سندھ پولیس نے انکوائری کمیٹی بنائی۔ انکوائری کرنے والے پولیس افسران نے رسک لے کر غیرت کا مظاہرہ کیا اور اپنی رپورٹ میں نقیب اللہ محسود کو بےگناہ جب کہ راؤ انوار کو ذمہ دار قرار دیا۔ مقدمہ درج ہونے کے بعد راؤ انوار غائب ہو گئے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اسلام آباد میں کسی مخصوص اور محفوظ مقام پر مہمان رہے۔ منت ترلوں کے بعد وہ بڑے طمطراق کے ساتھ جسٹس(ر) ثاقب نثار کی عدالت میں پیش ہوئے اور انہیں عزت و احترام کے ساتھ کراچی منتقل کیا گیا۔ بدقسمتی سے سیاست چمکانے کا وقت گزر گیا تو سیاسی لیڈروں نے نقیب اللہ محسود کو بھلا دیا البتہ کراچی کے ایک نوجوان جبران ناصر آخری وقت تک ان کے ساتھ کھڑے رہے۔ 

نواز شریف کی ضمانت پر رہائی سے تڑپنے والے پی ٹی آئی کے کسی حکمران کو راؤ انوار کی رہائی سے کوئی تکلیف نہیں

نقیب اللہ محسود کے بوڑھے والد دل میں نقیب اللہ کے بچھڑنے کا غم لئے اور کاندھوں پر ان کی بیوہ اور بچوں کا بوجھ اٹھائے کراچی کی عدالتوں کے چکر لگاتے رہے۔ کبھی عمران خان اور کبھی دیگر طاقتوروں سے التجائیں کرتے اور انصاف کی بھیک مانگتے رہے لیکن سزا دلوانا تو درکنار الٹا راؤ انوار ضمانت پر رہا ہو گئے۔ افسوس کہ بیماری کی بنیاد پر نواز شریف کی ضمانت پر رہائی سے تڑپنے والے پی ٹی آئی کے کسی حکمران کو راؤ انوار کی رہائی سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔

 نقیب اللہ محسود کے نام پر پہچان حاصل کرنے والے سیف الرحمان محسود نے قومی اسمبلی کا ممبر بننے کے بعد دوبارہ نقیب اللہ کا نام لیا اور نہ پی ٹی آئی کے کسی اور پختون ممبر اسمبلی نے۔ نقیب کے والد محمد خان ”ریاستِ مدینہ“ میں زنجیرِ عدل ہلاتے ہلاتے کینسر کے مریض بن گئے اور کیس کی پیروی کے لئے کراچی جانے سے بھی قاصر ہو گئے۔

ابھی چند روز قبل جبران ناصر اس مشن پر اسلام آباد آئے تھے کہ ان کا ویڈیو بیان لے جا کر کراچی کی عدالت میں پیش کردیں تاکہ وہ اور ان کے ساتھی بطور وکیل نقیب کے کیس کی پیروی کر سکیں۔ بہرحال محمد خان اپنے مقتول بیٹے کے لئے انصاف اور راؤ انوار کے لئے سزا کی آرزو لئے اس دار فانی سے کوچ کرگئے جبکہ نقیب اللہ محسود سمیت چار سو سے زائد انسانوں کے قتل کے ملزم راؤ انوار دندناتے پھر رہے ہیں تاہم افسوس کہ ”ریاستِ مدینہ“ کے امیرالمومنین اپنے سب وعدے بھول گئے ہیں اور راؤ انوار یا ان کے سرپرستوں سے ان کے خوف کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے محمد خان کے انتقال پر تعزیتی بیان جاری کرنے کی ہمت بھی نہیں کی۔

نقیب اللہ محسود کے قتل کا سانحہ تو چلیں ”ریاستِ مدینہ“ کے قیام سے پہلے رونما ہوا تھا لیکن ایس پی طاہر داوڑکا واقعہ تو ”ریاستِ مدینہ“ کے پایہ تخت اسلام آباد میں اس وقت سامنے آیا جب عمران خان ”امیرالمومنین“ بنے تھے اور بات بات پر اللہ کو جان دینے والے شہریار آفریدی وزیرداخلہ تھے۔

 پشاور کے شہریوں کی جان ومال کی حفاظت پر مامور پولیس ایس پی طاہر داوڑ اسلام آباد سے اٹھا کر غائب کئے گئے۔ جس کے بعد طاہرداوڑ کی لاش افغانستان سے برآمدہوئی۔ شہریار آفریدی نے اسمبلی کے فلور پر گلا پھاڑ پھاڑ کر اور قسمیں اٹھا اٹھا کر طاہر داوڑ کے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے دعوے کئے جبکہ ”امیرالمومنین“ نے مقتول کے بھائی اور بچوں کو وزیراعظم ہاؤس بلا کر انصاف دلانے کے وعدے کئے لیکن آج تک برائے نام انکوائری رپورٹ بھی سامنے نہیں آئی۔ 

طاہرداوڑ محمود خان عرف بزدار پلس کی پولیس کے ایس پی تھے جو عمران خان کی سلطنت کے مرکز سے اٹھائے گئے تھے جبکہ انکوائری شہریار آفریدی نے کرنا تھی۔ سانحہ ساہیوال کو دیکھ لیجئے کہ جس کا زخم تو ابھی تازہ ہے جس میں بڑے آرام سے سب ملزمان بری ہوگئے جبکہ مقتولین کے اہل خانہ کو اتنا دبادیا گیا ہے کہ اب وہ پیروی کرنے کے بھی قابل نہیں رہے۔

 برائے نام انکوائری رپورٹ بھی سامنے نہیں آئی

افسوس صرف اس بات کا نہیں کہ انصاف کا حصول تحریک انصاف کی حکومت میں ناممکن بن گیا ہے بلکہ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ حکمران اتنے ڈھیٹ ہو گئے ہیں کہ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی ”ریاستِ مدینہ“ کا نام استعمال کرنے سے باز نہیں آتے۔

 قابلِ صد احترام مولانا طارق جمیل صاحب کا فتویٰ درکار ہے کہ کیا ایسی حکومت کے لئے ”ریاستِ مدینہ“ کا پاک نام استعمال کرنا مناسب ہے؟ شہریار آفریدی اور علی محمد خان بتائیں کہ کیا نقیب اللہ محسود، طاہر داوڑ اور سانحہ ساہیوال کے مقتولین کے ورثا کی آہوں سے اب بھی عرش ہلتا ہے یا کہ نہیں؟

واضح اور یاد رہے کہ جان اللہ نے لینی ہے اور ایک دن ہم سب نے اسی طرح منوں مٹی تلے دفن ہونا ہے جس طرح نقیب اللہ محسود کے سادہ اور دکھی والد محمدخان دفن ہو گئے۔ اللہ کی عدالت میں زبان درازی سے کام چلے گا اور نہ جھوٹی قسموں سے وہاں آر ٹی ایس سسٹم فیل ہوگا اور نہ ووٹوں کی گنتی کی طرح غلط گنتی ہوگی۔ یہاں تو یہ تکیہ کلام بن گیا ہے کہ جان اللہ کو دینی ہے لیکن یاد رکھیں کہ جان اللہ نے لینی ہے۔

مزید خبریں :