04 دسمبر ، 2019
سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کراچی سیف سٹی منصوبہ 4 سال سے تعطل کا شکار ہے ، شہر کی شاہراہوں پر لوٹ مار جاری ہے جب کہ جرائم پیشہ گروہ درجنوں شہریوں کو سرعام قتل اور اغوا کرچکے ہیں مگر سندھ حکومت اجلاسوں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
ڈیفنس میں نوجوان طالبہ دعا منگی کے اغوا کے بعد یہ تاثر ایک اجتماعی خوف کو جنم دے رہا ہے کہ شہر قائد میں کوئی بھی محفوظ نہیں۔
کراچی کی سڑکوں ، بازاروں اور گلی محلوں میں شہریوں کو سرعام لوٹا، مارا ، اور اغوا کیا جارہا ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نظر نہیں آتا۔
ایسی ہی صورتحال کے تدارک کے لیے سپریم کورٹ نے جولائی 2016 میں کراچی کے حساس مقامات پر کلوز سرکٹ (سی سی ٹی وی) کیمروں کا نیٹ ورک قائم کرنے اور سیف سٹی منصوبہ شروع کرنے کی ہدایت دی تھی۔
ابتداء میں وزیراعلیٰ سندھ نے بھی کافی گرم جوشی دِکھائی اور اس حوالے سے اجلاس پر اجلاس بلوائے مگر کیمرے ابھی تک نہیں لگوائے جاسکے۔
نتیجہ یہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد کسی کو بھی لوٹ کر، کسی کو مار کر اور کسی کو سب کے سامنے اغواء کرکے یوں غائب ہوجاتے ہیں کہ ان کا سراغ تک نہیں ملتا۔
4 سال پہلے عدالتی حکم کے بعد سندھ حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ کراچی کے 2 ہزار مقامات پر ہائی ریزولوشن والے 10 ہزار کیمرے نصب کیے جائیں گے تاکہ سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو شناخت اور گرفتار کیا جاسکے۔
9 اگست 2016 کو انسپکٹر جنرل آف سندھ پولیس کی جانب سے کراچی کے 3 زونز میں 2 ہزار مقامات کی نشاندہی بھی کی گئی جس کے مطابق ویسٹ زون میں 500، ایسٹ زون میں 500 اور وی آئی پی سمجھے جانے والے ساؤتھ زون میں ایک ہزار مقامات شامل تھے۔
اس کے بعد سندھ حکومت نے پھر اجلاس پر اجلاس بلوائے اور فزیبیلٹی تیار کرنے کے لیے نجی شعبے کی خدمات بھی لی گئیں۔
سندھ حکومت کے ذرائع کے مطابق کراچی سیف سٹی منصوبے پر 10 ارب روپے لاگت آئے گی اور کیمروں کی تعداد کو 30 ہزار تک بڑھایا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق سندھ کابینہ کی جانب سے کراچی سیف سٹی منصوبے کی منظوری دے دی گئی ہے اور امکان ہے کہ اسے سندھ اسمبلی میں جلد پیش کیا جائے گا۔