09 دسمبر ، 2019
ایک زمانے میں اُردو ادب اور صحافت کا آپس میں بہت گہرا تعلق تھا کیونکہ مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر اور فیض احمد فیض جیسے نامور شاعر اور ادیب اخبارات و جرائد کے ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔
یہ بہت پڑھے لکھے اور نفیس لوگ تھے لیکن اُن کی صحافت بڑی بےادب تھی۔ اس بےادبی میں بدتمیزی نہیں بلکہ بالادست طبقے کے خلاف مزاحمت تھی اور یہ مزاحمت آج بھی ان کی پہچان ہے۔
جیسے جیسے اُردو ادب اور صحافت کا تعلق کمزور ہوتا گیا تو صحافت باادب ہوتی گئی۔ آج کی صحافت بڑی مؤدب ہو چکی ہے اور طاقتور کے سامنے ہاتھ باندھے اور نظریں جھکائے کھڑی ہے۔ آج کے اکثر صحافی وہی سچ بولتے ہیں جو انہیں کہا جاتا ہے جو سچ بولنے کی اجازت نہ ملے اُس پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
اگر کوئی گستاخ صحافی فیض یا جالب بننے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے حب الوطنی کے نام پر خاموش کرا دیا جاتا ہے اور جو خاموش رہنے سے انکار کر دے وہ غدار قرار پاتا ہے اور اُس کی آواز دبانے کی کوشش شروع ہو جاتی ہے۔ مولانا ظفر علی خان، جوہر اور فیض کے زمانے میں اہلِ صحافت کو اپنے دشمن کا پتا ہوتا تھا۔ وہ جانتے تھے پابندیاں کون لگاتا ہے، جیلوں میں کون ڈالتا ہے اور کوڑے کون مارتا ہے۔
آج کی صحافت کو اکثر اوقات نامعلوم دشمنوں کا سامنا رہتا ہے جو دیوار کے پیچھے چھپ کر وار کرتے ہیں۔ ان نامعلوم افراد کے بارے میں عقیل عباس جعفری نے کہا تھا؎
پہلے شہر کو آگ لگائیں نامعلوم افراد
اور پھر امن کے نغمے گائیں نامعلوم افراد
لگتا ہے انساں نہیں کوئی چھلاوا ہیں
سب دیکھیں پر نظر نہ آئیں نامعلوم افراد
جو بھی ان نامعلوم افراد کو معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے اُسے لاپتا کر دیا جاتا ہے۔ اب تو اخبارات کو ڈرانے دھمکانے اور اُن کے خلاف مظاہروں کے لئے بھی نامعلوم افراد کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جو سڑکیں بلاک کرتے ہیں، مار پیٹ کرتے ہیں اور پولیس اُن کے سامنے کھڑی صرف تماشا دیکھتی ہے۔
دھمکیوں اور پابندیوں کے اس دور میں کراچی آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ نے ہمیں بتایا کہ وہ بارہویں عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس موضوع پر گفتگو کی جائے کہ کیا اُردو ادب اور صحافت زوال کا شکار ہے؟ یہ سُن کر میں احمد شاہ کے بارے میں فکر مند ہو گیا لیکن پھر سوچا کہ یہ شخص کراچی میں بیٹھ کر خطروں سے کھیلنے والا پرانا کھلاڑی ہے، اگر وہ ہمیں جبر و ستم کے خلاف چیخ و پکار کے لئے دعوت دے رہا ہے تو یہ دعوتِ گناہ فوری طور پر قبول کر لینی چاہئے۔
5سے 8 دسمبر تک کراچی آرٹس کونسل میں جاری رہنے والی اس عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کے لئے یہ خاکسار کراچی پہنچا تو ایسا لگا کہ یہ کانفرنس کم اور میلہ زیادہ تھا جس میں پاکستان کی ہر زبان اور لہجے کی نمائندگی نظر آ رہی تھی۔
کانفرنس میں پہنچا تو پتا چلا کہ اردو اور بلوچ شعراء کے بارے میں ایک سیشن شروع ہو چکا ہے اور دوسری طرف کشور ناہید کے ساتھ سیشن چل رہا تھا۔ میں دونوں میں شرکت کرنا چاہتا تھا۔ احمد شاہ اور حارث خلیق پہلے مجھے بلوچ شعراء کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں لے گئے جہاں اے آر داد، افضل مراد، غفور شاد، وحید نور اور عمران ثاقب کی دبنگ باتوں کے ساتھ ساتھ ان کی خوبصورت اردو شاعری سننے کا موقع ملا۔
احمد شاہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کمال کر دیا تھا۔ اردو زبان کو پاکستان کی سب سے اہم زبانوں کے ساتھ جوڑنے کے لئے ان سب زبانوں کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا جا رہا تھا۔ بلوچ شعراء نے جن موضوعات پر شکوہ شکایت کیا اُن موضوعات پر اُردو کے بڑے بڑے شاعر آج خاموش نظر آتے ہیں۔
سندھ ادب پر جامی چانڈیو، فہمیدہ حسین، سید مظہر جمیل، ممتاز بخاری اور قاسم راجپر نے گفتگو کی جبکہ پختون ثقافت پر اباسین یوسفزئی نے روشنی ڈالی۔ پنجابی ادب پر محمود شام، تروت محی الدین اور محمد حنیف نے عاصم شیرازی کے ساتھ مل کر خوبصورت باتیں کیں جبکہ ارشد محمود کے ساتھ نعیم بخاری کے چٹکلے بھی پنجابی ثقافت اور لب و لہجے کی نمائندگی کر رہے تھے۔
اس کانفرنس میں ہر زبان اور ہر مکتب ِ فکر کی نمائندگی تھی۔ مسکراتے ہوئے بزرگ بھی تھے، ناراض نوجوان بھی۔ افتخار عارف، امجد اسلام امجد، حسینہ معین، زاہدہ حنا، انور مسعود، امر جلیل، نور الہدیٰ شاہ، شمیم حنفی، زہر انگاہ، تحسین فراقی اور فاطمہ حسن بھی تھے اور انور مقصود بھی۔
کہیں وسعت اللہ خان، مظہر عباس، اویس توحید اور عظمیٰ الکریم آزادیٔ صحافت کا نوحہ پڑھ رہے تھے، کہیں سہیل وڑائچ اور مبشر زیدی اُمید پسندی دکھا رہے تھے۔ آرٹس کونسل کے لان میں میرے ساتھ گفتگو کا آغاز عاصمہ شیرازی نے کیا اور پھر ہم نے وہ وہ کچھ کہہ ڈالا جو ہم نہ اخبار میں لکھ سکتے ہیں، نہ ٹی وی پر بول سکتے ہیں۔
اس اُردو کانفرنس کی سب سے بڑی خوبصورتی آزادیٔ اظہار تھی اور ہم نے آزادیٔ اظہار کے دشمنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہمارے ساتھ مکالمہ کرنا ہے تو ہم مکالمے کے لئے تیار ہیں اور اگر لڑائی کرنی ہے تو ہم لڑائی کے لئے بھی تیار ہیں۔
میں نے دکھی دل کے ساتھ کہا کہ اردو کی آج وہی حالت ہے جو کرکٹ ٹیم کی ہے۔ اخبارات اور ٹی وی اسکرینوں پر اُردو کی ٹانگیں اور بازو ٹوٹے ہوئے نظر آتے ہیں کیونکہ اردو ہماری قومی زبان تو ہے لیکن دفتری زبان نہیں بن سکی۔
آئین پاکستان کی دفعہ 251میں اردو کو 15 سال میں دفتری زبان بنانے کا وعدہ کیا گیا لیکن مارشل لاؤں نے سب گڑبڑ کر دی۔ 2015میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اردو کو دفتری زبان بنایا جائے اور سی ایس ایس کا امتحان بھی اردو میں لیا جائے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے اردو میں نہیں انگریزی میں جاری کئے۔ میں نے قرارداد پیش کی کہ اردو کو دفتری زبان بنایا جائے اور پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، سرائیکی اور دیگر زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ یہ قرار داد سب نے ہاتھ اٹھا کر منظور کی۔ اس سیشن کے بعد میں نے سرائیکی زبان کے شاعر اقبال سوکڑی کے ساتھ منائی جانے والی شام میں بھی شرکت کی۔ اس عالمی اردو کانفرنس میں گوادر کے ایک بلوچ شاعر عمران ثاقب کی خوبصورت اور درد بھری نظم نے بہت متاثر کیا۔
سفر صحرائی طوفاں میں گھرا ہے، لاپتا ہے
بشر اپنی ڈگر سے ہٹ گیا ہے، لاپتا ہے
طویل اک راستہ جس پر دھویں کا سلسلہ ہے
وہاں حد نظر جو فاصلہ ہے، لاپتا ہے
نظر دوڑائو تو اک دوڑ ہے جو بے، اماں ہے
وہ اک ٹھہرائو سے جو واسطہ ہے، لاپتا ہے
ہجوم اک منتشر ریوڑ کی طرح چل رہا ہے
کہ ان میں سمت کا جو سوچتا ہے، لاپتا ہے
وہ جن کی روح جڑ سے مر چکی ہے پھر رہے ہیں
جو خود میں دفن ہو کر جی اُٹھا ہے، لاپتا ہے
دعا امراء کی بر آتی ہے مانگے سے بھی پہلے
زمیں پر جو غریبوں کا خدا ہے، لاپتا ہے
جہل بازار میں سب جھوٹ کے گاہک ہیں ثاقبؔ
جو اس ماحول میں سچ بولتا ہے، لاپتا ہے