12 دسمبر ، 2019
برطانیہ میں عام انتخابات کے لیے ووٹنگ کا سلسلہ جاری ہے جو کہ مقامی وقت کے مطابق رات 10 بجے تک جاری رہے گا۔
برطانیہ میں عام انتخابات عموماً 5 سال بعد ہوتے ہیں لیکن آج ہونے والے انتخابات گذشتہ 5 سال کے دوران ہونے والے تیسرے الیکشن ہیں۔
2017 کے الیکشن کے بعد یہ انتخابات 2022 میں ہونا تھے لیکن 30 اکتوبر 2019 کو برطانوی پارلیمنٹ نے اکثریتی ووٹوں سے نئے انتخابات کی منظوری دی تھی۔
برطانوی دارالعوام کے 650 انتخابی حلقوں میں عام انتخابات کے موقع پر پولنگ کا عمل مقامی وقت کے مطابق صبح 7 بجے شروع ہوا جو بغیر کسی وقفے کے رات 10 بجے تک جاری رہے گا۔
برطانیہ میں الیکشن والے دن چھٹی کا کوئی تصور نہیں، چھٹی پرائمری اسکول کے صرف ان طلبہ کو ملی جن کے اسکولوں میں پولنگ اسٹیشن بنے۔
15 گھنٹے طویل پولنگ کے سبب لوگ اپنی سہولت کے اوقات میں ووٹ ڈالنے جاتے ہیں، پولنگ کے ابتدائی گھنٹوں میں عموماً معمر اور ریٹائرڈ افراد ووٹ ڈالتے ہیں، دفاتر جانے والوں کی اکثریت شام کو ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن جاتی ہے۔
1923 کے بعد برطانیہ میں یہ دوسرے انتخابات ہیں جو دسمبر میں ہورہے ہیں ، اس سے قبل 1974 میں بھی سردیوں میں انتخابات ہوئے تھے۔
عام انتخابات 2019 میں برطانیہ کے تقریباً 4 کروڑ 60 لاکھ افراد ووٹ کے ذریعے اپنے اپنے حلقوں میں دارالعوام (ہاؤس آف کامنز) کے ممبر کا انتخاب کریں گے۔
بریگزٹ کے نام پر لڑے جانے والے انتخابات میں 3 ہزار 300 سے زائد امیدوار میدان میں ہیں جبکہ کئی پاکستانی نژاد امیدوار بھی قسمت آزما رہے ہیں۔
انتخابات میں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی اور اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن کی لیبر پارٹی کے درمیان سخت مقابلے کا امکان ہے۔
دونوں بڑی جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنا اپنا ووٹ کاسٹ کیا جبکہ بورس جانسن نے عوام سے بھی ووٹ ڈالنے کی اپیل کی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سخت سردی میں بھی عوام کی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنز کا رخ کررہی ہے جبکہ انتخابات کے نتائج آنے کا سلسلہ جمعے کی صبح سے شروع ہوگا۔
واضح رہے کہ برطانیہ میں گذشتہ 5 سال کے دوران یہ تیسری مرتبہ انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔
برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے یا اس سے نکل جانے کے حوالے سے 23 جون 2017 کو ریفرنڈم ہوا تھا جس میں بریگزٹ کے حق میں 52 جبکہ مخالفت میں 48 فیصد ووٹ پڑے جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا، کیوں کہ وہ بریگزٹ کے مخالف تھے۔
ڈیوڈ کیمرون کے استعفے کے بعد برطانیہ کی وزیراعظم بننے والی ٹریزا مے نے جولائی میں بریگزٹ ڈیل کی پارلیمنٹ سے منظوری میں ناکامی کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا اور ان کے بعد بورس جانسن نے عہدہ سنبھالا تھا۔
وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی بورس جانسن نے کہا تھا کہ اب چاہے کچھ بھی ہو برطانیہ 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا تاہم وہ اس میں ناکام ہوچکے ہیں۔
برطانوی پارلیمنٹ دو مرتبہ بورس جانسن کے منصوبے کو ناکام بناچکی ہے جس پر انہوں نے ملکہ برطانیہ سے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کی منظوری بھی لی تھی جس کو سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔
بعد ازاں یورپی یونین نے معاہدے کا وقت دیتے ہوئے 31 جنوری تک توسیع کی منظوری دی ہے جس کو بورس جانسن نے قبول کرتے ہوئے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا ہے۔
بریگزٹ ڈیل میں سب سے اہم معاملہ برطانوی شمالی آئرلینڈ اور یورپی یونین کے رکن ملک آئرلینڈ کے درمیان کسٹم قوانین کا ہے جس پر برطانوی سیاسی جماعتوں میں اختلافات رہے ہیں۔