دنیا
Time 12 دسمبر ، 2019

برطانوی انتخابات: بڑی تعداد میں پاکستانی نژاد امیدواروں کی جیت کا امکان

برطانیہ میں آج (12 دسمبر) کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں جس کے نتائج سے بریگزٹ کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔

برطانیہ میں عام انتخابات عموماً 5 سال بعد ہوتے ہیں لیکن آج ہونے والے انتخابات گذشتہ 5 سال کے دوران ہونے والے تیسرے الیکشن ہیں۔

 2017 کے الیکشن کے بعد یہ انتخابات 2022 میں ہونا تھے لیکن 30 اکتوبر 2019 کو برطانوی پارلیمنٹ نے اکثریتی ووٹوں سے نئے انتخابات کی منظوری دی تھی۔

 نئے الیکشن کے لیے ووٹنگ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی درخواست پرکی گئی، کیونکہ انہیں امید ہے کہ  نئے انتخابات کے ذریعے انہیں عوام دوبارہ زیادہ مینڈیٹ دیں گے  جس کے ذریعے وہ بریگزٹ ڈیل اور پارلیمانی ڈیڈلاک کو ختم کر سکیں گے۔

 4 کروڑ 60 لاکھ افراد حق رائے دہی رکھتے ہیں

پولنگ کا عمل مقامی وقت کے مطابق صبح 7 بجے سے رات 10 بجے تک جاری رہے گا۔

عام انتخابات 2019 میں برطانیہ کے تقریباً 4 کروڑ 60 لاکھ افراد ووٹ کے ذریعے اپنے اپنے حلقوں میں دارالعوام (ہاؤس آف کامنز) کے ممبر کا انتخاب کریں گے۔

برطانیہ میں 18 سال کی عمر کے افراد کو ووٹ ڈالنے کاحق حاصل ہے اور  کل 650 انتخابی حلقے ہیں جب کہ حکومت بنانے کے لیے 326 ارکان کی تعداد درکار ہوتی ہے۔

عام انتخابات 2019 میں مجموعی طور پر 3 ہزار 322 امیدوار میدان میں ہیں۔

ان انتخابات میں مختلف پارٹیاں اور آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں کنزرویٹو پارٹی ، لیبر پارٹی ، لبرل ڈیموکریٹس،گرین پارٹی ،اسکاٹش نیشنل پارٹی اور ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی اہم سیاسی جماعتیں ہیں جب کہ 187 افراد آزادانہ حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

اصل مقابلہ کنزرویٹو پارٹی اور لیبر پارٹی کے درمیان متوقع

اصل مقابلہ دو بڑی جماعتوں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی اور اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن کی لیبر پارٹی کے درمیان متوقع ہے۔

برطانیہ میں 1922 سے لے کر اب تک ہر الیکشن یا تو کنزرویٹو یا لیبر پارٹی جیتتی رہی ہے۔

2017 کے انتخابات میں بھی یہی دو بڑی جماعتیں تھیں لیکن دونوں میں سے کسی کے پاس اتنے ممبر نہیں تھے کہ اکثریتی حکومت بنا سکیں جس کے بعد کنزرویٹو، جن کے پاس سب سے زیادہ سیٹیں تھیں  انھوں نے دارالعوام میں مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کے لیے ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی (ڈی یو پی) کے ساتھ اتحادی حکومت بنائی تھی۔

انتخابات کے سلسلے میں کیے گئے ایک حالیہ سروے کے مطابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی کو لیبرپارٹی پر  برتری حاصل ہے تاہم لبرل ڈیموکریٹس بھی اچھی پوزیشن میں نظر آتی ہے۔

مسلمان ووٹرز کا اہم کردار

برطانیہ میں ہونے والے عام انتخابات میں مسلمان ووٹرز کا بھی اہم کردار ہوگا، 30 لاکھ  سے زائد برطانوی مسلمان، عیسائیوں کے بعد برطانیہ کی دوسری بڑی مذہبی برادری ہیں۔

جیو نیوز کی رپورٹ کے مطابق ان عام انتخابات میں پہلی بار بڑی تعداد میں مسلمان امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں اور امید ہے کہ پہلے سے زیادہ تعداد میں مسلمان امیدوار دارالعوام میں پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

بڑی تعداد میں پاکستانی نژاد امیدواروں کی جیت کا امکان

 ان انتخابات میں پہلی بار کل 70 مسلمان امیدوار حصہ لے رہیں جب کہ گذشتہ انتخابات میں یہ تعداد 47 تھی۔

فوٹو:فائل

ان امیدواروں کی اکثریت کا تعلق پاکستان ، بنگلا دیش اور کُرد نسل سے ہے جب کہ امید کی جارہی ہے کہ 24 امیدوار ایسے ہیں جو پارلیمنٹ میں پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے جو کہ اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہوگی۔

رپورٹ کے مطابق جن 24 امیدواروں کی جیت کے امکانات زیادہ ہیں ان میں سے 70 فیصد پاکستانی نژاد ہیں۔
5 سال کے دوران تیسرے انتخابات

واضح رہے کہ برطانیہ میں گذشتہ 5 سال کے دوران یہ تیسری مرتبہ انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔

برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے یا اس سے نکل جانے کے حوالے سے 23 جون 2017 کو ریفرنڈم ہوا تھا جس میں بریگزٹ کے حق میں 52 جبکہ مخالفت میں 48 فیصد ووٹ پڑے جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا، کیوں کہ وہ بریگزٹ کے مخالف تھے۔

ڈیوڈ کیمرون کے استعفے کے بعد برطانیہ کی وزیراعظم بننے والی ٹریزا مے نے جولائی میں بریگزٹ ڈیل کی پارلیمنٹ سے منظوری میں ناکامی کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا اور ان کے بعد بورس جانسن نے عہدہ سنبھالا تھا۔

وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی بورس جانسن نے کہا تھا کہ اب چاہے کچھ بھی ہو برطانیہ 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا تاہم وہ اس میں ناکام ہوچکے ہیں۔

برطانوی پارلیمنٹ دو مرتبہ بورس جانسن کے منصوبے کو ناکام بناچکی ہے جس پر انہوں نے ملکہ برطانیہ سے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کی منظوری بھی لی تھی جس کو سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔

بعد ازاں یورپی یونین نے معاہدے کا وقت دیتے ہوئے 31 جنوری تک توسیع کی منظوری دی ہے جس کو بورس جانسن نے قبول کرتے ہوئے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا ہے۔

بریگزٹ ڈیل میں سب سے اہم معاملہ برطانوی شمالی آئرلینڈ اور یورپی یونین کے رکن ملک آئرلینڈ کے درمیان کسٹم قوانین کا ہے جس پر برطانوی سیاسی جماعتوں میں اختلافات رہے ہیں۔

مزید خبریں :