خان صاحب! ایسے کام نہیں چل سکتا

 ہمارا معاشرہ اجتماعی خودکشی کی طرف بڑھ رہا ہے ہمیں اس بوسیدہ نظام کو جڑوں سے اکھاڑ کر پھینکنا ہوگا— فوٹو فائل

2010ء کا وہ تاریک دن اہلِ لاہور کو نہیں بھول سکتا جب جناح اسپتال پر حملہ کیا گیا اور 6 افراد ہلاک کر دیے گئے۔ یہ حملہ اُس زخمی دہشت گرد کے فرار کیلئے تھا جس نے ایک عبادت گاہ پر حملہ کیا تھا۔ ابھی چند ماہ پہلے دہشت گرد بلوچستان کے ضلع کیچ کے اسپتال پر حملہ آور ہوئے۔ یہ طے ہے کہ اسپتالوں پر حملے کرنے والے دہشت گرد ہوتے ہیں۔

 امریکہ نے بھی افغانستان کے شہر قندوز کے اسپتال پر فضائی حملے میں ملوث اپنے اہلکاروں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کی۔ شام، یمن اور فلسطین میں بھی اسپتالوں پر حملے کے الزام لگائے گئے مگر کسی نے بھی تسلیم نہیں کئے۔ 

لاہور میں یہ کیا ہوا؟ قانون کے پاسداروں نےڈاکٹرز سے بدلہ لینے کے لئے اسپتال پر حملہ کر دیا۔ امراضِ دل کے اسپتال پر یقین نہیں آتا۔

ہائے! ایک قانون دان نے ایک بیمار لڑکی کا آکسیجن ماسک اتار کر پھینک دیا اور اس نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ دل کے تین اور مریض اِس حملے کے سبب دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوئے۔ ان کا قاتل کون ہے؟ دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر کس کے خلاف درج ہونی چاہئے؟ کالے کوٹ والوں کے یا کالی وردی والوں کے خلاف، یا اُن ڈاکٹرز کے خلاف جنہوں نے کچھ دن پہلے وکیلوں پر تشدد کیا تھا اور پھر معافی مانگ لی تھی۔

میرا پہلا الزام پولیس پر ہے۔ میڈیا کے کیمروں میں صاف نظر آ رہا ہے کہ جب انفارمیشن منسٹر فیاض الحسن چوہان کی بعض وکلاء پٹائی کر رہے ہیں اور وہ پولیس کو آوازیں دے رہے تھے تو مٹی کی بنی ہوئی پولیس ایسے خاموش کھڑی تھی جیسے اُن کے آدھے دھڑ پتھر کے ہو گئے ہوں۔ لاہور واقعی شہرِ طلسم بن چکا ہے۔ بعض شدت پسند وکلاء کا یہ رویہ نیا نہیں۔

 پرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر شیر افگن خان کے ساتھ بھی ایسے چند وکلا نے یہی سلوک کیا تھا بلکہ انہیں قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ وہ بھی دل کے مریض تھے اور ان کا علاج جاری تھا۔

میں پورے یقین سے کہتا ہوں اگر ماڈل ٹاؤن کے 92زخمیوں اور چودہ شہیدوں کے قاتلوں کو سزا مل گئی ہوتی تو یہ واقعہ نہ ہوا ہوتا۔ کوئی معاشرہ بھی جزا و سزا کے بغیر پنپ نہیں سکتا۔ میرا دوسرا الزام بھی پولیس پر ہے۔ پولیس کو چاہئے تھا کہ ان درندوں کو اسپتال سے بہت پہلے کہیں روک لیتی، مہذب معاشروں میں تو اسپتال کے قریب ہارن بجانا بھی جرم شمار ہوتا ہے اور لاہور کی پولیس ہے کہ نعرے لگاتے ہوئے ایک جلوس کو اسپتال کے اندر جانے دے رہی تھی۔ 

میرا تیسرا الزام بھی پولیس پر ہے پولیس کو پہلے معلوم ہونا چاہئے تھا کہ وکیل کیا کرنے والے ہیں۔ یہ طے ہے کہ پولیس کی جانب سے بروقت ایکشن لیا جاتا تو انسانی تاریخ کا یہ سفاک واقعہ پیش نہ آتا۔ اطلاعات کے مطابق اسپیشل برانچ نے وکلا کے احتجاج کی اطلاع بروقت دے دی تھی مگر پولیس نےکوئی اقدامات نہیں کیے بلکہ ٹریفک پولیس اس جلوس کیلئے راستہ بناتی رہی اور یہ سارا منظر لاہور سیف سٹی کے کیمروں سے نہ صرف پولیس افسران دیکھتے رہے بلکہ سیکورٹی کے دیگر ادارے بھی۔ ایسی صورت میں پولیس کی خاموشی مجرمانہ ہے۔

پولیس کی جانب سے بروقت ایکشن لیا جاتا تو انسانی تاریخ کا یہ سفاک واقعہ پیش نہ آتا

آہ! وہ پولیس جو اپنی گاڑی نہیں بچا سکتی اُس نے عوام کی حفاظت خاک کرنی ہے۔ اہل لاہور کیلئے میرا مشورہ ہے کہ وہ پولیس کی جلی ہوئی گاڑی کا ڈھانچہ آئی جی آفس کے باہر سڑک پر یادگار کے طور پر نصب کر دیں تاکہ پولیس افسران کو آتے جاتے یاد آتا رہے کہ ہم کو قوم کا ہی نہیں، قوم کی چیزوں کا بھی تحفظ کرنا ہے۔ پولیس کو اپنے تحفظ کی کتنی فکر ہے۔ اِس کااندازہ آئی جی آفس جانے والوں کو اچھی طرح ہے۔

اب آتے ہیں وکلاء کی طرف۔ حیران ہوں کہ وہ وکیل جو اسپتال میں کھڑا ہوکر پستول سے فائر کر رہا تھا، اسے یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ اس اسپتال میں جو دل کے مریض ہیں وہ بھی کسی کے باپ ہوں گے، کسی کے بھائی ہوں گے، ان میں بھی کوئی کسی کی ماں ہو گی، کسی کی بہن ہو گی۔

 ایسا لگتا ہے کہ اس کے سینے میں دل نہیں پتھر دھڑک رہا تھا۔ رات بھر ان وکیلوں کی گرفتاریاں جاری رہیں۔ 250 وکیلوں کو نامزد کیا گیا مگر اب تک سو کے قریب وکیل گرفتار کئے گئے۔ کچھ خواتین وکیلوں کو رہا بھی کر دیا گیا۔ مجھے پورا یقین ہے باقی وکیل بھی دو تین ہفتوں میں رہا کر دیے جائیں گے۔

مریضوں کی ڈرپس اتاری گئیں ان کے لواحقین کو پیٹا گیا قانون دانوں کی کسی ایسی غنڈہ گردی کی مثال پوری انسانی تاریخ میں موجود نہیں۔ 

 عدالتیں اُن کی ضمانت لے لیں گی۔ چار آدمیوں کے قتل کے باوجود پولیس نے کسی کے خلاف بھی قتل کی ایف آئی آر درج نہیں کی۔ معمولی دفعات لگائیں۔ برسوں سے وکلاء اور پولیس کے درمیان ایک خاموش معاہدہ چلا آرہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو راستہ دیتے ہیں، وکلاء کی لیڈر شپ گرفتار شدہ وکلا کے متعلق کہہ رہی ہے کہ ان میں زیادہ تر لوگ بے گناہ ہیں۔ ایک اسپتال پر حملہ کرنے والے جلوس میں شریک کوئی ایک بھی شخص بے گناہ نہیں ہو سکتا مگر کس ڈھٹائی سےحقائق کو مسخ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ کیا انہیں انسان کہا جا سکتا جو دل کے مریض بوڑھوں اور عورتوں کے ساتھ بے وجہ بدتمیزی سے پیش آرہے ہیں۔ 

مریضوں کی ڈرپس اتاری جا رہی ہیں۔ ان کے لواحقین کو پیٹا جا رہا ہے۔ قانون دانوں کی کسی ایسی غنڈہ گردی کی مثال پوری انسانی تاریخ میں موجود نہیں۔ کیسے کہوں کہ یہ پڑھے لکھے لوگ تھے۔ یہ وکیل تھے۔ ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو برطانیہ اور امریکہ سے قانون کی تعلیم حاصل کرکے آئے تھے۔

 اگر ہم ان چند وکلاء کے رویے پر غور کریں تو لگتا ہے کہ جج بحالی تحریک سے ایسے شدت پسند وکلاء کو اپنی طاقت کا احساس ہوا اور طاقت کا گھمنڈ بڑی خطرناک چیز ہے۔ پھر اُس معاشرے میں جہاں سول ادارے انتہائی کمزور ہوں، وہاں تو یہ گھمنڈ تباہی لاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے ہمارا معاشرہ اجتماعی خودکشی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہمیں اس بوسیدہ نظام کو جڑوں سے اکھاڑ کر پھینکنا ہوگا۔ عمران خان صاحب! کسی خوش فہمی میں نہ رہئے، ایسے کام نہیں چل سکتا۔

مزید خبریں :