15 دسمبر ، 2019
وہ سربازار گرفتار کیا گیا، فیصل آباد سے لاہور آتے ہوئے دن دہاڑے عین موٹر وے پر اس سے ہیروئن برآمد کی گئی، قومی میڈیا میں بتایا گیا کہ اس نے خود اپنے بریف کیس سے ہیروئن نکال کر اینٹی نارکوٹکس فورس کو دی۔
اس منشیات فروش کو گرفتار ہوئے سات ماہ ہونے کو ہیں۔ تب شدید گرمی کے دن تھے، پھر خزاں آئی اور اب جاڑہ ہے۔ منشیات فروش ابھی تک جیل میں ہے، نہ کوئی ثبوت سامنے لایا گیا نہ وڈیو آئی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی شہادت جس سے رانا کی منشیات فروشی ثابت ہوتی ہو۔
کیا معاشرہ سفید جھوٹ، کذب اور گندی الزام تراشی سے چل سکتا ہے؟ وزیروں نے تو پتا نہیں خدا کو جان دینی ہے یا نہیں؟ یوں لگتا ہے کہ ’’خدا کو جان دینی ہے‘‘ ان کا تکیہ کلام ہے۔ انہیں اس کے معانی تک نہیں معلوم، مگر اس ملک کے عادل، عساکر اور لیڈر جو فیصلہ سازی کی پوزیشن میں ہیں، خدا کے حضور کس منہ سے جائیں گے؟
اگر اس پر منشیات فروشی کے الزام صرف اسے پھنسانے کے لئے لگائے گئے ہیں تو کیا ہمارے ملک کی قیادت اپنے ضمیر میں جھانک کر اس معاملے کا دوبارہ جائزہ لے گی، کیا بڑے بڑے جبّوں، پگڑیوں اور عہدوں والے کروڑوں لوگوں کے سامنے ہونے والی اس زیادتی کا کبھی مداوا کریں گے؟
ملک کا سب سے ’’کرپٹ‘‘ وزیراعظم رہا ہوکر بیرونِ ملک علاج کروا رہا ہے، جعلی اکاؤنٹس اور بے نامی جائیدادوں کا مالک صدر بھی ضمانت کے ذریعے ریلیف لے چکا، اب صرف رانا منشیات فروش ہی باقی رہ گیا ہے جس کمزور فرد واحد پر پوری ریاست کا غصہ ہی نہیں اتر رہا۔ کیا تمام تر اہلِ اقتدار میں ایک بھی خدا کا بندہ ایسا نہیں جو جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہے۔
کیا وزیروں، افسروں یا ججوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو کھڑا ہو کر کہے، میں بے گناہ پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ ڈالنے سے اختلاف کرتا ہوں، کیا ہمارے طاقتوروں میں ایک بھی ایسا صاحبِ ضمیر نہیں جو اس صریح زیادتی پر اپنے ذاتی و گروہی مفادات قربان کرتے ہوئے بول پڑے یوں کم از کم اپنے ضمیر کو تو ہلکا کر لے۔ کل کو تاریخ آج کے سارے معاشرے ہی کو بے حس اور مردہ نہ قرار دیدے، کوئی ایک تو سورما ایسا ہو جو اس جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جھوٹ کے پردے چاک کر دے۔
جولائی سے اب تک اس فقیر پُرتقصیر نے بہت انتظار کیا، اس مقدمے کی ہر پیشی پر اخبارات کی رپورٹ پڑھی، خوش فہمی تھی کہ یہ کوئی اندھیر نگری اور چوپٹ راج تھوڑی ہے، رانا کے خلاف لازماً ٹھوس ثبوت موجود ہوں گے تبھی تو اسے سرِ بازار پکڑا ہے وگرنہ سرعام اس پر الزام کیوں لگاتے؟ عقل کہتی تھی کہ ایسے الزامات بے بنیاد ہوتے ہیں مگر خوش فہمی یہ تھی کہ ریاست اور اس کے عمّال اس قدر اندھے تو نہیں ہو سکتے کہ معاملہ کچھ بھی نہ ہو اور رانا پر یہ الزام لگا دیا ہو۔
اب جبکہ رانا کو جیل گئے ہوئے چھ ماہ سے زائد ہو گئے ہیں، میری ریاست، حکومت اور معاشرے کے بارے میں خوش فہمی دور ہو چکی ہے۔ جب پورے معاشرے میں ایک بھی سقراط نہ رہے، جب پوری حکومت میں ایک بھی حُر نہ ہو اور جب پوری اسٹیبلشمنٹ میں ایک بھی سعید مہدی نہ ہو بلکہ سارے کے سارے مسعود محمود ہو جائیں تو پھر خوش فہمی کیا رکھنی ہے۔
اگر تورانا واقعی منشیات فروش ہے تو اسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے، اس کے گھنائونے دھندے عوام کے سامنے لائے جائیں۔ چھ ماہ گزر چکے ہیں، ابھی تک تو اس کی بے گناہی، مظلومیت اور بے چارگی کے ثبوت ہی سامنے آئے ہیں، اس لئے ہمیں اب یہ آواز بلند کرنا ہوگی کہ رانا کے ساتھ سراسر زیادتی ہو رہی ہے۔ ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرنا بھی جرم ہے۔
میں ڈرپوک ہوں مگر اپنے فرضِ منصبی کی خاطر ببانگِ دہل مطالبہ کرتا ہوں کہ ریاست رانا کو انصاف فراہم کرے۔
میرے آقا فخر کائنات حضرت محمدﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر وہ میرے داہنے ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند رکھ دیں، تب بھی میں سچائی پھیلاتا رہوں گا۔ آقاؐ کے گناہگار اُمتی کی حیثیت سے میں اس تابناک روایت پر عمل کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ مجھ سے تو یہ بے انصافی برداشت نہیں ہو رہی، چنانچہ اس ناانصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہوں۔
ہم سب کا پختہ ایمان ہے کہ مرنے کے بعد ہم سے پوچھ گچھ ہوگی۔ ہمارے ایمان اور ہمارے اعمال پر سوالات اٹھیں گے۔ میری روح کانپ اٹھتی ہے کہ اگر مجھ سے یہ سوال پوچھ لیا گیا کہ بے گناہوں کی گرفتاری پر زبان رکھنے کے باوجود تم کیوں نہ بولے، قلم کا استعمال آنے کے باوجود تم نے بے گناہ کے لئے کیوں نہ لکھا؟ مجھے تو موت کا انتظار بھی ہے اور ڈر بھی۔
وہ اور لوگ ہیں جنہیں یقین ہے کہ انہوں نے کبھی نہیں مرنا اور ان کا اقتدار اور شان و شوکت ہمیشہ ہی برقرار رہنی ہے۔ سچ کی عادت نہ بھی ہو تو موت کے خوف ہی سے سچ بول دیں۔ کہاں ہیں جبہ و دستار والے جو ہر ایک کو کافر قرار دینے پر تلے رہتے ہیں، وہ کیوں نہیں ظلم اور استبداد کے خلاف زبان کھولتے۔ اقتدار کے مزے لینے والے وزرا اور دوسرے کلغی دار جو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے، خدا کے حضور رانا ثناء اللہ کی جھوٹے الزامات میں گرفتاری اور قید کے حوالے سے کیا جواب دیں گے۔
سر پر تاج سجانے والے ہوں، کندھوں پر چمکتے تمغے لگانے والے یا پھر انصاف کرتے ہوئے مصنوعی وگ لگانے والے، کیا ان میں ایک بھی ایسا نہیں جو معاشرے میں سچ کا بول بالا کرنے اور آزادی و انسانی حقوق کے لئے بلّھے شاہ بن سکے۔ کیا کوئی بھی ایسا نہیں جو شاہ حسین کی طرح معاشرے کے دکھوں اور ظلم کو ماں کے نام ہی کر کے سب کو سنا دے۔
مائے نی میں کنہوں آکھاں؟ کیا ہم اس قدر گئے گزرے ہیں کہ لوگ اپنے عہدوں اور مفادات کی خاطر جھوٹ کو اپنی ذات کا حصہ بنائے رکھتے ہیں۔ کیا ہم اس قدر تہی دامن ہیں کہ ہمارے بڑے لوگوں کی زبان اور سوچ کو ان کے سیاسی خیالات نے تالے لگا رکھے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو سب کو جھنجوڑنے کی ضرورت ہے۔
خدائے بزرگ و برتر نے حق و انصاف کی عدالت آسمانوں پر لگانے کا جو فیصلہ کر رکھا ہے اس میں یقیناً کوئی مصلحت پوشیدہ ہوگی وگرنہ رانا ثناء اللہ کی ست ماہی گرفتاری پر اس فانی دنیا میں کوئی عدالت لگتی تو یقیناً صاحبانِ انصاف سے ان7ماہ، 210دنوں، 5040 گھنٹوں اور 30ہزار 24سو منٹوں کا حساب ضرور طلب کیا جاتا جس میں رانا کو غلط طورقید رکھا گیا ہے۔