16 دسمبر ، 2019
سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیاہے کہ اگر 6 ماہ میں قانون نہ بن سکا توآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر 2019 سے ریٹائر تصور ہوں گے اور صدر پاکستان، وزیر اعظم کی ایڈوائس پر حاضر سروس جنرل کا بطور آرمی چیف تقرر کریں گے۔
28 نومبر 2019 کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نے حکومت کو 6 ماہ میں قانون سازی کرنے کا حکم دیتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع دی تھی۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا جو 39 صفحات پر مشتمل ہے جسے 3 رکنی بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہمارے سامنے مقدمہ تھا کہ کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت توسیع کی جاسکتی ہے؟ سماعت کے پہلے روز درخواست گزار عدالت میں پیش نہیں ہوا، درخواست گزار اگلی سماعت پر عدالت میں حاضر ہوا۔
’قانون اور آئین میں مدت ملازمت میں توسیع کی کوئی گنجائش موجود نہیں‘
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہماری حکومت قوانین کی ہے یا افراد کی، حکومت نے قوانین پرعمل کرنا ہے اور قانون کے تحت جنرل کے رینک کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمریا مدت ملازمت نہیں دی گئی۔
تحریری فیصلے کے مطابق ادارہ جاتی پریکٹس کے تحت ایک جنرل 3 سال کی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرہوتا ہے، ہمارے سامنے مقدمہ تھا کہ کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاسکتی ہے، تاریخ میں پہلی مرتبہ آرمی چیف کی تعیناتی اورریٹائرمنٹ کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی، ریٹائرمنٹ اور توسیع کی ایک تاریخ رہی ہے، ادارہ جاتی پریکٹس قانون کا مؤثر متبادل نہیں ہوسکتا، وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع دی لیکن وزیراعظم کوایسا کوئی فیصلہ کرنے کا آئینی اختیار حاصل نہیں ہے، قانون اورآئین میں مدت ملازمت میں توسیع کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔
قانونی سازی کے عمل کے لیے 6 ماہ چاہئیں، معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا: تحریری فیصلہ
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے مطابق فیصلے میں 28 نومبر کے شارٹ آرڈر کی مفصل وجوہات ہیں، اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ جاری پریکٹس کو قانون کے مطابق کوڈیفائن کرنا ہوگا اور وفاقی حکومت مطلوبہ قانون سازی کی شروعات کرے گی۔
فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کے مطابق وفاقی حکومت کو قانونی سازی کے عمل کے لیے 6 ماہ چاہئیں، یہ سوچ کر کہ آرمی چیف کمانڈ، ڈسپلن، ٹریننگ اور جنگی تیاری کے ذمہ دار ہیں، معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا، شرائط وضبوابط طے کرنے کا معاملہ بھی پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے وفاقی حکومت پر چھوڑا۔
آپ چاہیں جس اعلیٰ منصب پر ہوں قانون سے بالا نہیں: چیف جسٹس کا فیصلے میں حوالہ
آرمی چیف کی مدت ملازمت کے تفصیلی فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے برٹش چیف جسٹس سرایڈورڈکک کا 1616 کے بادشاہ جیمز کے اختیارات پر فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ برطانوی چیف جسٹس نے کہا تھاکہ آپ چاہیں جس اعلیٰ منصب پرہوں قانون سے بالا نہیں، قانون سازی سے عوامی نمائندوں کی خودمختاری بھی ثابت ہوگی۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہمارے سامنے مقدمہ تھا، کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت توسیع کی جاسکتی ہے، اب معاملہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کے پاس ہے، یاد رکھیں ادارے مضبوط ہوں گے تو قوم ترقی کرے گی۔
’جنرل باجوہ کی بطور آرمی چیف موجودہ تعیناتی کا دارومدار مذکورہ قانون سازی پر ہوگا‘
آرمی ریگولیشن پر اعلیٰ عدالت کے تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ کیس کا بنیادی سوال قانون کی بالادستی کا تھا، ہم نے آرٹیکل 243 کے اسکوپ کی وضاحت کا معاملہ بھی پارلیمنٹ اور حکومت پر چھوڑا، جنرل قمرجاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف موجودہ تعیناتی کا دارومدار مذکورہ قانون سازی پر ہوگا، یہ قانون سازی اٹارنی جنرل کی یقین دہانی کے مطابق چھ ماہ میں کی جائے گی۔
تحریری فیصلے کے مطابق آرمی چیف کی آئینی مدت کو مکمل طور پر بے ضابطہ نہیں چھوڑا جا سکتا، اگر آرمی ریگولیشنز آرمی ایکٹ سے اختیارات نہیں لیتیں تو قانون سے ماورا ہونگی، ان اصولوں کی روشنی میں آرمی ریگولیشنز کا جائزہ لینا ہوگا، اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مناسب قانون سازی سے ریگولیشنز میں سے ان نقائص کو نکالے۔
’اگر آرمی ریگولیشنز تک عوام کو پہلے ہی رسائی حاصل ہوتی تو حل پہلے نکل آتا‘
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے ہے کہ آرمی ریگولیشنز پر مہر لگی ہے کہ یہ ممنوع ہیں، آرمی ریگولیشنز پر لکھا ہے یہ دستاویز پریس یا کسی غیرمتعلقہ شخص کو نہیں دی جاسکتی، پارلیمنٹ کے قانون اور ماتحت قوانین عوامی دستاویزات ہیں، صرف دفاعی قوتوں، دفاعی تنصیبات اور قومی سیکیورٹی کے ریکارڈ سے متعلق استثنا ہے اور یہ پابندی آرمی قوانین سے متعلق نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ یہ بات اہم ہے کہ جہاں معلومات ہوگی اور بحث ہوگی وہیں حل نکلیں گے، اگر آرمی ریگولیشنز تک عوام کو پہلے ہی رسائی حاصل ہوتی تو حل پہلے نکل آتا، اس لیے ہر قانون سازی متعلق معاملات تک عوام کی رسائی ہونی چاہیے۔
تحریری فیصلے کے مطابق آرمی ایکٹ 1952 آئین کی شق 243 کلاز 3 کے مطابق فوج کے بنیادی دھانچے کی ترویج پرناکافی ہیں، یہ قانون فوج میں کمیشن دینے، آرمی سروس کے قواعد وضوابط فراہم نہیں کرتا، آرمی ایکٹ کمیشنڈ افسران کی مدت ملازمت اور توسیع پر ضروری معلومات نہیں دیتا، آرمی چیف کی تنخواہ اور مراعات کا فیصلہ بھی صدر پاکستان کرتا ہے اور قانون میں آرمی چیف کی کوئی مدت نہیں ہے۔
جنرل باجوہ کی مدت ملازمت، توسیع قانون کی عدم موجودگی میں بے نتیجہ ہے: سپریم کورٹ
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 3 سال کی مدت ملازمت فوج کی روایت ہے جسے قانونی حیثیت حاصل نہیں، قانون کی عدم موجودگی میں غیر یقینی ختم کرنے کے لیے اس روایت کا اطلاق کیا جا سکتا ہے، قانون میں جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کی کوئی گنجائش موجود نہیں، ادارے میں جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کی کوئی باقاعدہ روایت موجود نہیں۔
فیصلے کے مطابق جنرل باجودہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی وزارت دفاع کی سمریوں کی کوئی حیثیت نہیں، صدر، وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کی جانب سے دوبارہ تعیناتی، توسیع اور نئی تعیناتی بے معنی ہے، جنرل باجوہ کی مدت ملازمت، توسیع قانون کی عدم موجودگی میں بے نتیجہ ہے۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اگر قانون نا بن سکا تو 6 ماہ میں جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہو جائیں گے، اگر 6 ماہ تک ایسا نا ہو سکا تو صدر نیا آرمی چیف مقرر کریں گے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تفصیلی فیصلے کے ساتھ اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ وہ ساتھی جج سید منصور علی شاہ کے فیصلے سے مکمل اتفاق کرتے ہیں۔