اسپیکر قومی اسمبلی کے نام

قومی اسمبلی اسپیکر اسد قیصر—فوٹو فائل 

اسپیکرز کارنر

محلہ جمہوری، عالم بالا

عزت مآب اسد قیصر صاحب، سپیکر قومی اسمبلی پاکستان

السلام علیکم! میں ذاتی طور پر آپ کے انسانی رویوں، جذبۂ ہمدردی اور کمزوروں کے لیے آپ کی محبت سے متاثر ہوں لیکن آج کا خط صرف میری طرف سے نہیں بلکہ عالمِ بالا میں موجود اُن تمام جمہوری اسپیکرز کی طرف سے ہے جو پاکستان کی خوشحالی اور پارلیمان کی بالادستی کے خواہاں ہیں۔ 

کل ہی میری رہائش گاہ پر ایک غیرمعمولی اجلاس ہواجس میں شاہد خاقان عباسی کے قومی اسمبلی میں خطاب کو براہِ راست سننے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ تقریر سننے کے بعد سابق اسپیکرز نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو ایک کھلا خط لکھا جائے جس میں اجلاس کے دوران ہونے والے فیصلوں سے آپ کو آگاہ کیا جائے۔

سب سے پہلے اجلاس کے شرکا کا تعارف کروا دوں۔ میرا نام مولوی تمیز الدین خان ہے، میں اُس بدقسمت آئین ساز اسمبلی کا اسپیکر تھا جسے 1954میں گورنر جنرل غلام محمد نے تحلیل کر دیا تھا۔ یہ میں ہی تھا جو اسمبلی کی تحلیل کے خلاف درخواست لے کر سپریم کورٹ گیا تھا اور یہ بدنصیب دن بھی مجھے ہی دیکھنا پڑا تھا جب جسٹس منیر کی سربراہی میں ججوں کی اکثریت نے نظریۂ ضرورت سے کام لیتے ہوئے قومی اسمبلی کی تحلیل کو جائز قرار دے دیا تھا۔ یہی وہ بدقسمت مرحلہ تھا جب پارلیمان کی بالادستی کو گہری ترین ضرب لگائی گئی۔

 آج کے اجلاس میں جنت مکانی ملک معراج خالد خاص طور پر شریک ہوئے، ملک معراج خالد عالم ِ بالا میں جمہوری اور غیر جمہوری کیمپ کے درمیان رہائش پذیر ہیں۔ صدر لغاری کے پڑوس میں واقع اُن کے گھر کے اِن دنوں جمہوری کیمپ سے گہرے رابطے ہیں۔ ملک معراج خالد اور راؤ رشید دونوں کئی بار خفیہ طور پر بھٹو صاحب اور بینظیر بھٹو سے مل چکے ہیں مگر عالم ِ موجود میں اُن کے محترمہ بینظیر بھٹو سے جو اختلاف تھے، وہ مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکے۔ ملک معراج خالد کے بارے میں دوست دشمن سب معترف ہیں کہ وہ ایماندار ہیں اور پارلیمانی بالادستی پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ 

اسپیکرز کے غیر معمولی اجلاس میں صاحبزادہ فاروق علی خان، حفیظ پیرزادہ، یحییٰ بختیار، ڈاکٹر شیر افگن اور حاجی سیف اللہ بھی موجود تھے۔خصوصی طور پر ایکسپرٹس کو مدعو کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آئین اور رولز آف پروسیجر کے حوالے سے بعض نکات کی وضاحت حاصل کی جا سکے۔ اجلاس نے میرے ذمہ یہ فرض لگایا کہ میں آپ کو خط لکھ کر متنبہ کروں کہ اعلیٰ انسانی اوصاف کے باوجود آپ اپنی حکومت اور پارٹی کے دباؤ میں آکر پارلیمان اور ارکانِ پارلیمان کے حقوق پر مصلحت کا شکار نظر آتے ہیں۔

 اجلاس میں اس رائے کا بھی اظہار کیا گیا کہ ابتدا میں تو آپ کا رویہ خاصا جمہوری، سیاسی اور پارلیمانی تھا لیکن بڑھتے دباؤ کی وجہ سے آپ اپنی حکومت اور پارٹی کے حصار میں قید ہو گئے ہیں۔ آپ کی آزادانہ آواز دب گئی ہے اور آپ کی روش غیر جمہوری ادوار کے سپیکرز جیسی ہو گئی ہے حالانکہ آپ اعلیٰ پارلیمانی اور جمہوری روایات کے حوالے سے اسمبلی میں موجود سابق اسپیکر فخر امام سے رہنمائی لے سکتے تھے۔

 اسی طرح یوسف رضا گیلانی نے بھی پروڈکشن آرڈر کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور محترمہ بینظیر بھٹو سے محاذ آرائی مول لے لی تھی آپ اُن سے اِس حوالے سے بات چیت کر سکتے ہیں۔ اسپیکرز اور آئین پسندوں کے عالم ِ بالا میں ہونے والے اجلاس میں آپ کی توجہ کیلئے چند نکات ترتیب دیئے گئے ہیں جن کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے:

(1) اجلاس نے مجموعی طور پر آپ کی سوچ اور نیت کو سراہا اور توقع ظاہر کی کہ آپ اپنی بہترین صلاحیتوں کو کام میں لاکر پارلیمان کی بالادستی اور خود مختاری کو یقینی بنا سکتے ہیں۔

(2) اجلاس نے شاہد خاقان عباسی کی تقریر کے بعد آپ کے حوالے سے اٹھنے والے اعتراضات کا جائزہ لیا، ملک معراج خالد نے آپ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی ذاتی سوچ جمہوری ہے مگر خانِ اعظم اور پارٹی کے دباؤ میں آکر آپ پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کر پاتے اور اگر پروڈکشن جاری بھی ہو جائیں تو آپ اُن پر زور دے کر عملدرآمد نہیں کروایا۔ ملک معراج خالد کی سفارش پر آپ کو ایک اور موقع دیا جا رہا ہے کہ آپ اس حوالے سے گومگو سے نکلیں اور اسپیکر کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ہر رکن کے پروڈکشن آرڈر پر لازماً عمل کروائیں، آپ کو اِس پر کسی کی مخالفت بھی مول لینا پڑے تو لیں۔ قانون اور آئین کی بالادستی کے لیے واضح موقف ہی آپ کو تاریخ میں بڑا کردار دے گا۔

(3) حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی نے اسمبلی کی اہمیت کو کم کر دیا ہے، قانون سازی مکمل طور پر رُکی ہوئی ہے، عالمِ بالا میں ہونے والی سپیکرز کانفرنس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سپیکر کو فوری طور پر حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل ایک پارلیمانی پارٹی تشکیل دینی چاہئے جو اختلافی امور طے کرے اور قانون سازی کی راہ ہموار کرے۔

(4) اجلاس نے خاص طور پر آپ کی یہ ڈیوٹی لگائی ہے کہ آپ وزیراعظم سے مل کر انہیں درخواست کریں کہ وہ پابندی سے پارلیمان آئیں تاکہ پارلیمان کا کام سنجیدہ اور باوقار انداز میں ہو سکے۔

(5) اجلاس نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی کہ اس بات کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ جمہوری گاڑی حکومت اور اپوزیشن نامی دو پہیوں کے سر پر چلتی ہے، اپوزیشن کو اس کا جائز مقام دینے کی ضرورت ہے، دوسری طرف اپوزیشن کا بھی فرض ہے کہ وہ جائز قانون سازی میں حکومت کی مدد کرے۔

(6) یحییٰ بختیار اور حفیظ پیرزادہ نے تجویز دی کہ مائنس ون فارمولے کی باقاعدہ مذمت کی جائے تاہم ووٹنگ کے بعد طے ہوا کہ آپ کو لکھے خط کے ذریعے حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ تینوں فریقوں کو آگاہ کیا جائے کہ تحریک عدم اعتماد اگرچہ وزیراعظم کو ہٹانے کا آئینی طریقہ ہے لیکن اس کی مثال طلاق جیسی ہے، طلاق کی اجازت ہے مگر اسے ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح آئیڈیل جمہوریت میں عدم اعتماد کی تحریک ہو یا مائنس ون، اسے جائز تو سمجھا جاتا ہے مگر اسے مستحسن قرار نہیں دیا جاتا۔ مائنس ون یا تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے سے عمران خان کا مینڈیٹ چھیننا افسوسناک ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آئیڈیل جمہوری اور آئین کی روح کے مطابق ملک کا نظام چلایا جائے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے ملک میں بہتری آ سکتی ہے۔

والسلام۔ مولوی تمیزالدین

کنوینر سپیکرز کمیٹی عالم ِ بالا

مزید خبریں :