14 دسمبر ، 2019
محبت اور امن کے گہوارے میں نفرت کیسے پھوٹ پڑی؟ ہزاروں سال کی تاریخ میں لاہور میں کسی ایک بڑی جنگ کا ثبوت نہیں ملتا یہاں تو محبت کے زمزمے بہتے رہے، پکوانوں کی مہک فضا کو معطر کرتی رہی، موسیقی اور شاعری کی بلند آہنگ آوازیں دنیا بھر میں اس کا تعارف رہیں۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ معاشرے کی پڑھی لکھی بالائی، وکلا اور ڈاکٹر جھگڑ پڑے، اسپتال پر حملہ ہو گیا، معصوم مریض مارے گئے۔
بظاہر یہ چند گھنٹوں کا واقعہ ہے لیکن پُرامن لاہور میں ہونے والے اس واقعہ کو قابل اجمیری کے اس شعر کی روشنی میں دیکھیں ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
سچ تو یہ ہے کہ پانچ دریاؤں کی سرزمین میں گزشتہ سوا سال سے جس طرح حکومت چلائی جا رہی تھی اس کا کچھ نہ کچھ نتیجہ تو نکلنا ہی تھا۔ وکلااور ڈاکٹروں کی کش مکش گزشتہ دس دن سے جاری تھی، جلوس نکل رہے تھے، ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی تھی۔ جلوس جب اسپتال کی طرف روانہ ہوا تو انہیں روکا کیوں نہ گیا؟ مناسب حفاظتی انتظامات کیوں نہ کئے گئے؟ ہے کوئی وزیراعلیٰ، چیف سیکرٹری یا آئی جی جو اس کا جواب دے؟
جان کی امان پاؤں تو عام شہری کیا یہ پوچھ سکتا ہے کہ سانحۂ لاہور میں بزکش المعروف دُلہا بھائی کے ’’شاندار‘‘ طرزِ حکمرانی کا کتنا دخل تھا؟ اُن کی انتظامیہ پر ’’گہری گرفت‘‘ کے تو خانِ اعظم تک قصیدہ خواں ہیں اور کہتے ہیں کہ بزکش کام تو بہت اچھا کرتے ہیں، بس تشہیر نہیں کر پاتے۔
جلوس جب اسپتال کی طرف روانہ ہوا تو انہیں روکا کیوں نہ گیا؟ مناسب حفاظتی انتظامات کیوں نہ کئے گئے؟ ہے کوئی وزیراعلیٰ، چیف سیکرٹری یا آئی جی جو اس کا جواب دے؟
لوجی قدرتی طور پر تشہیر کا مسئلہ بھی حل ہو گیا، دُلہا بھائی کے طرزِ حکمرانی کی جتنی تشہیر اس واقعہ سے ہوئی ہے پچھلے سوا سال میں نہیں ہوئی تھی۔ اگر لاٹ صاحب ناراض نہ ہوں تو سلیمانی ٹوپی والے نوکرِ اعظم سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ سیکڑوں من پسند تبادلوں کے بعد بھی آپ حالات کو کنٹرول نہیں کر سکے، اس سے آپ کی قابلیت اور مہارت کا پول کھل نہیں گیا؟ اور پھر میرٹ پر آنے والے پولیس کمانڈر سے جواب تو لینا چاہئے کہ سات دن سے وکلااور ڈاکٹروں میں کھلے عام جنگ جاری تھی، پولیس نے جلوس کو دل کے اسپتال جانے کیوں دیا؟ انہیں نہ روکنے کا ذمہ دار آخر ہے کون؟ ہمارے خطے میں نئے آنے والوں کو سلامی دینے کا رواج پرانا ہے۔ نئے لاٹ صاحب اور نئے کمانڈر صاحب کو دل کے اسپتال میں ہونے والے واقعہ کی پہلی سلامی مبارک ہو۔
کہنے کو تو کانگو اور روانڈا آزاد اور خودمختار ملک ہیں مگر حالات ناگفتہ بہ، کسی ملک کا نظم و نسق خراب ہو جائے یا امن و امان جواب دے جائے تو وہ ملک قائم تو رہتے ہیں مگر وہاں انارکی پھیل جاتی ہے، چھینا جھپٹی ہوتی ہے، طبقات ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں، ہر کوئی دوسرے پر شک کرتا ہے، معاشرے کے تار و پود بکھر جاتے ہیں۔ ہم لاکھ پردوں میں چھپائیں حقیقت یہی ہے کہ لاہور میں ہونے والا واقعہ ہماری اندرونی انارکی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ہم کئی سال سے نفرت کے سوداگر بنے ہوئے ہیں، الزامات کی نت نئی فیکٹریاں کھل چکی ہیں، گالیوں کے ایسے ایسے ذخیرے دریافت ہوئے ہیں کہ جو نہ کسی نے پہلے سنے تھے اور نہ کسی کو اُن کے سننے کا یارا ہے۔
ہر طرف منفی سوچ کا راج ہے مثبت سوچ کہیں معدوم ہو گئی ہے، آزادیاں دینے کے بجائے ہر طرف پابندیاں لگانے کا موسم ہے، قوم کو امید دلانے کی ضرورت ہوتی ہے مگر یہاں کے حالات ایسے ہیں کہ ہر کوئی مایوسی کا ٹیکہ لگا رہا ہے۔
تاجروں نے اپنی جمع پونجی پچھلے کمروں میں چھپا لی ہے، افسر شاہی آئے روز کے تبادلوں سے تنگ ہے، کئی ماہ سے حکومتِ پنجاب کے اہم ترین پروجیکٹس نوکر شاہی کے اعتراضات کی وجہ سے لٹکے ہوئے ہیں، ان بابوئوں نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ اس بار کاغذوں پر دستخط کر کے نیب کا نشانہ نہیں بنیں گے۔
اگر کوئی اور ملک ہوتا یا اسی ملک میں کسی اور کی حکومت ہوتی تو سانحۂ لاہور کے بعد ساری انتظامیہ بدل جاتی اور اگر کوئی منصف مزاج سربراہِ حکومت ہوتا تو وہ صوبے کے تینوں بڑوں کی چھٹی کرا دیتا۔
قدرت نے ایسا موقع فراہم کر دیا تھا کہ دُلہا بھائی کو گھر بھیج کر طرزِ حکمرانی کی نئی بنیاد رکھی جا سکتی تھی مگر صد افسوس ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ ہمارے سروں پر دُلہا بھائی، سلیمانی ٹوپی والا اور میرٹ کمانڈر ہی راج کرتے رہیں گے۔
خانِ اعظم اس سارے ہنگامے کی ذمہ داری مسلم لیگ (ن) پر ڈال کر اسی طرح امن، چین اور سکون سے حکومت کرتے رہیں گے۔
بھٹو وزیراعظم ہوتے تو لاہور آ کر بیٹھ گئے ہوتے، جونیجو کے دور میں یہ واقعہ ہوا ہوتا تو وہ اب تک ذمہ داروں کا تعین کر چکے ہوتے، بےنظیر بھٹو چیف ایگزیکٹو ہوتیں تو ایک ایک مظلوم کے گھر پر دستک دے کر اس کی اشک شوئی کر چکی ہوتیں، نواز شریف برسر اقتدار ہوتے تو جوڈیشل انکوائری کا اعلان کر چکے ہوتے اور تو اور میر ظفراللہ جمالی یا معین قریشی جیسا وزیراعظم بھی ہوتا تو حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے دن رات اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کرتا۔
اسکندر مرزا ہوتے تو چالاکی و عیاری سے دونوں فریقوں کے درمیان معاہدہ کروا کر سب کو حیران کر دیتے۔ ایوب خان کا دور ہوتا تو نواب آف کالا باغ نے اب تک دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا ہوتا، جنرل ضیاء الحق برسرِ اقتدار ہوتے تو اختر عبدالرحمٰن اور حمید گل کے ذریعے سے وہ لاہور میں امن کا جلوس نکلوا چکے ہوتے، روشن خیال پرویز مشرف کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہوتی تو اب تک شریف الدین پیرزادہ کے ہمراہ عزیز منشی، ڈاکٹر افتخار اور ڈاکٹر چوہدری بشیر سے دس خفیہ ملاقاتوں میں ڈاکٹروں اور وکیلوں کے درمیان کوئی راستہ نکال چکے ہوتے لیکن چونکہ اب ان میں سے کوئی بھی نہیں، خانِ اعظم اس سارے ہنگامے کی ذمہ داری مسلم لیگ (ن) پر ڈال کر اسی طرح امن، چین اور سکون سے حکومت کرتے رہیں گے۔
لاہور امن پسند شہر ہے، اس میں نفرت اس وقت آتی ہے جب صوبے اور شہر میں طرز حکمرانی حد سے زیادہ خراب ہو، شورش اور جتھہ بندی تب جنم لیتی ہے جب انارکی پھیل چکی ہو، تشدد اس وقت فروغ پاتا ہے جب لوگوں کو عدالتوں سے انصاف کی توقع اٹھ جائے،
لوگ قانون کو اس وقت ہاتھ میں لیتے ہیں جب انہیں یقین ہو جائے کہ قانون کی محافظ پولیس ان کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا اس کے اسباب ہوتے ہیں، سیاسی حکومت مسائل حل کرنے میں ناکام ہو جائے تو حادثات کا ظہور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ میری خواہش یہ ہے کہ کاش اب ہی اس واقعہ سے سبق حاصل کر کے حالات بہتر کئے جائیں۔