25 دسمبر ، 2019
پریشانی اِس پر بنتی ہے کہ ملائیشیا کا دورہ منسوخ کر دیا گیا۔ وہ دورہ منسوخ کر دیا گیا جس کے حوالے سے جب معاملات کو طے کیا جا رہا تھا تو اس وقت کم از کم پاکستان میں بریکنگ نیوز بنائی جا رہی تھی۔
گزشتہ کالم میں بڑے دکھی دل کے ساتھ یہ مصدقہ خبریں بیان کی تھیں کہ وزرا کی کابینہ میں شمولیت، اُن کی معزولی اور محکموں کی تبدیلی سے لیکر مقتدرہ میں حال ہی میں ایک اہم تعیناتی تک پر غیر ملکی دباؤ پسندیدگی، ناپسندیدگی تک کا معاملہ سامنے آیا تھا مگر اب تو کم و بیش یہ اعلانیہ کر دیا گیا ہے کہ کہاں جانا ہے اور کہاں جانے سے یوٹرن لے لینا ہے۔
سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے کہ مملکتِ پاکستان خود اقتدارِ اعلیٰ رکھتی بھی ہے یا نہیں۔ یہ دلیل کہ فلاں سے تعلقات کشیدہ ہو جاتے بودی ہے کیونکہ یہ طے کرنا ہمارا کام ہے کہ ہمارا مفاد کس میں ہے۔
دباؤ تو آیا ہی کرتے ہیں مگر قیادت اِس کا مقابلہ کیا کرتی ہے۔ یہ کوئی ماضی بعید کا قصہ نہیں کہ جب وزیراعظم نواز شریف اپنی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے سال ستمبر 2013میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے گئے تو امریکہ اور بعض دیگر ریاستیں ہر قیمت پر بشارالاسد حکومت کا خاتمہ چاہتی تھیں مگر نواز شریف نے اپنے خطاب میں شام کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے اِس رویے کی مخالفت کی کہ کسی ملک کی قانونی تسلیم شدہ حکومت کو طاقت کے بل بوتے پر ختم کر دیا جائے۔
اسی طرح جب ایک خلیجی ملک میں خانہ جنگی کی آگ بھڑک اٹھی تو بھی نواز شریف پر سخت دبائو تھا کہ وہ پاکستان کی افواج کو اُن پرائے بھڑکتے شعلوں میں کودوا دیں مگر اِس دفعہ پھر انکار کر دیا گیا پھر سی پیک پر ہر صورت عملدرآمد۔
ایسا نہیں تھا کہ اِن تمام معاملات کی وجہ سے اپنی ذات کے حوالے سے نتائج سے بےخبر تھے مگر کر گزرے۔ جب اس دورے کے حوالے سے اعلان کیا گیا تھا تو اس سے قبل اس کے منفی اور مثبت نتائج کا جائزہ نہیں لیا گیا تھا؟ کہاں کہاں اس حوالے سے ناپسندیدگی ہوگی اور ان کا رویہ کیا ہوگا، کیا اس کا مطالعہ نہیں کیا گیا تھا؟
اگر یہ سب نہیں کیا گیا تھا تو پھر اتنے بڑے بڑے دعوے کیوں کیے جا رہے تھے؟ اور اگر یہ سب کچھ کیا گیا تھا اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ یہ پاکستان کے مفاد میں ہے تو اس کو منسوخ کیوں کر دیا گیا؟ لیڈر کے سامنے جب دباؤ آتا ہے تو دو راستے موجود ہوتے ہیں۔ یا تو وہ قومی مفاد کو چنتے ہوئے اپنے لئے آفتیں، تکلیفیں برداشت کرنے کے راستے پر چل نکلے یا خود کو محفوظ رکھتے ہوئے قوم کو مصیبتوں کے سپرد کر دے۔
خود کو بچانے کا موجودہ رویہ کسی صورت درست نہیں اور یہ تو سوچ لیا گیا کہ ملائیشیا جانے سے فلاں فلاں ناراض ہو جائے گا لیکن وہاں شریک ممالک پر کیا اثرات ہونگے، اس کو نظر انداز کر دیا گیا۔
مثلاً قطر ہی پاکستان کے حوالے سے تعلقات میں گرم جوشی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ قطر کے سفیر سقر بن مبارک المنصوری بہت متحرک ہیں، اُن کی ہی کاوشوں سے یہ ممکن ہوا کہ پاکستان کے کاروباری افراد کو قطر میں ایئر پورٹ پر ہی ویزہ مہیا کیا جا رہا ہے جبکہ ایک لاکھ مزید پاکستانیوں کو قطر میں ملازمتیں فراہم کی گئی یا کی جا رہی ہیں۔ اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ قطر کے دیگر عرب ممالک سے تعلقات کی خرابی اور 2017سے بائیکاٹ کے باوجود قطر کی معیشت کو فرق نہیں پڑا ہے بلکہ فٹبال ورلڈ کپ 2022کی تیاریوں سمیت دیگر معاشی سرگرمیاں تیزی سے جاری ہیں۔
اس سال جو بجٹ پیش کیا گیا وہ گزشتہ پانچ برسوں میں سب سے بڑا بجٹ تھا جبکہ اسی دوران اس بات کا بھی خیال رکھا گیا کہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس نہ لگایا جائے حالانکہ اسی عرصے میں سعودی عرب، UAEاور بحرین نے 5%ویلیو ایڈڈ ٹیکس نافذ کر دیا لیکن قطر نے اِس کے منفی اثرات سے محفوظ رہنے کی غرض سے تاحال اِس کو نافذ نہیں کیا ہے۔
اِسی دوران بڑے بڑے پروجیکٹ جیسے دوہا میٹرو، شرق کراسنگ پروجیکٹ، لنکنگ دوہا، راس، ابو ابائود ایریا، ویسٹ بے ہائی رائز ڈسٹرکٹ جبکہ اس کے علاوہ ہائی ویز پانی اور بجلی کے بڑے بڑے منصوبے شروع کر دیئے گئے ہیں۔ بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی قدم دوسرے کے دبائو کے زیر اثر لینے سے قطر جیسے دوست ممالک پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔
پالیسی میں توازن ہونا چاہئے۔ اسی طرح ڈاکٹر مہاتیر نے جو مؤقف کشمیر پر اختیار کیا ہے اس کی حیثیت صرف علامتی نہیں ہے بلکہ اگر اس پر سوچ سمجھ کر حکمت عملی تیار کی جائے تو ان کے مؤقف نے واضح پیغام دیا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کو ناصرف کسے ہم خیال بنایا جا سکتا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ان کو کشمیر کے حوالے سے اپنی حکمتِ عملی میں شامل کیا جا سکتا ہے جس میں اقتصادی ہتھیار سب سے مؤثر ثابت ہو سکتا ہے
لیکن اس سب کے لئے ضروری تھا کہ یا تو کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کا اعلان نہ کیا جاتا اور اگر کر دیا تھا تو پھر اپنے دیگر دوستوں کو اعتماد دلایا جاتا کہ ہم کسی تفریق کے بجائے قربت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی حکمتِ عملی کے ساتھ وہاں پر موجود ہوں گے کیونکہ کسی بھی نوعیت کی تفریق یا باہمی اختلافات کا بڑھ جانا اور عالمِ اسلام کا اس انداز میں دھڑوں میں تقسیم ہو جانا کسی کے مفاد میں بھی نہیں ہے اور موافقت کی جانب بڑھنا ہی اصل منزل ہونی چاہئے۔ اس وقت مسئلہ یہ بھی ہے کہ ترکی اور ایران بھی قطر کی مانند پابندیوں یا غیر معمولی مخالفت کا سامنا کر رہے ہیں۔
ترکی شام اور لیبیا میں غیر ملکی مداخلت کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں حالانکہ اُس نے اِس دوران بھی اپنی معیشت کو سنبھالا دیا رکھا ہے۔ اِسی طرح ایران مستقل طور پر اقتصادی پابندیوں اور جنگ کی دھمکیوں کی زد میں رہتا ہے لیکن اس کے باوجود non oilمصنوعات کی ایکسپورٹس بڑھانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
اس سب کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے لئے ایسی کیفیت قائم کرنا کہ ہم شمولیت کے متعلق سوچے سمجھے بنا فیصلہ کر دیتے ہیں اور پھر دباؤ میں آ کر واپس لے لیتے ہیں، مناسب نہیں کیونکہ ایسی صورت میں ہمارا تاثر ہر جگہ ابہام کا شکار ہو جائے گا۔
حد درجہ احتیاط درکار ہے۔ ایک بات اور چین میں ایسے متعدد پاکستانی قیدی موجود ہیں جو اپنے جرم کی سزا مکمل کر چکے ہیں مگر ان کو رہائی نصیب نہیں ہوئی۔
دونوں حکومتوں کو اس ضمن میں فی الفور کارروائی کرنا چاہئے اور اگر ان کی واپسی کے اخراجات کا مسئلہ ہے تو ایسی صورت میں ان کے خاندانوں کو موقع دینا چاہئے کہ وہ یہ بندوبست کر کے اپنے پیاروں کو واپس لا سکیں کیونکہ قید کی مدت سے زیادہ قید کاٹنا کسی طور بھی روا نہیں رکھا جانا چاہئے۔