27 دسمبر ، 2019
بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جبکہ بھارتی ریاست اترپردیش میں اب تک 21 مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں۔
بھارت میں متنازع شہریت کے قانون کے خلاف 19 روز سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور روز بروز مظاہروں میں تیزی آرہی ہے۔
بھارتی ریاست اترپردیش کے مسلم اکثریتی صوبوں میں احتجاج کے پیش نظر انٹرنیٹ کی سروس بند کردی گئی ہے جبکہ نماز جمعہ کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔
ریاستی حکومت نے مسلم اکثریتی علاقوں میں پیراملٹری فورس کے دستے تعینات کرکے دفعہ 144 نافذ کردی ہے جس کے باعث ریاست کے 21 اضلاع میں لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے۔
شمالی ریاست اترپردیش میں اب تک پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے 21 مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ریاستی پولیس کے ترجمان نے بھی گزشتہ ہفتے 19 افراد کی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
یوپی پولیس نے مظاہروں میں شریک 6 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا جبکہ سوشل میڈیا پر احتجاجی پوسٹ کرنے پر بھی 120 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔
اُدھر بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بھی جگہ جگہ احتجاج کیا گیا تاہم جامع مسجد کے باہر بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔
دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ و طالبات نے 15 ویں روز بھی مسلسل احتجاج کیا اور نماز جمعہ کے بعد مظاہرین کی بڑی تعداد بینر اور پلے کارڈ اٹھائے باہر نکل آئی۔
متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروایا گیا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دے دی تھی۔
بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بل پیش کیا گیا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔
تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق اس متنازع ترمیمی بل کو ایوان زیریں (لوک سبھا) میں 12 گھنٹے تک بحث کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔
ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بھی اس متنازع بل کو کثرت رائے سے منظور کیا جا چکا ہے۔
متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔