24 دسمبر ، 2019
بھارت میں مسلم مخالف شہریت کے قانون کیخلاف احتجاج اور مسلمان ہونے کی وجہ سے کانووکیشن سے نکالنے پر ایک طالبہ نے یونیورسٹی کا گولڈ میڈل ٹھکرا دیا۔
ربیعہ عبدالکریم نے پانڈچیری یونیورسٹی سے گزشتہ برس ذرائع ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔
بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ریاست تامل ناڈوکے شہر پانڈچیری کی ایک یونیورسٹی میں 27 ویں کونووکیشن کی تقریب کے دوران کیرلا سے تعلق رکھنے والی گولڈ میڈلسٹ طالبہ ربیعہ عبدالرحیم کو بھارتی صدر رام ناتھ کووند کی آمد سے قبل ہی پولیس نے تقریب سے باہر نکال دیا۔
ربیعہ کا کہنا ہے کہ انہیں دیگر طلبہ نے پولیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حجاب کرنے اور مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں تقریب سے نکالا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: جامعہ ملیہ دہلی کے طلبہ پر پولیس کا تشدد
کونووکیشن کی تقریب میں بھارتی صدر رام ناتھ نے تمام طلبہ میں سرٹیفکیٹس اورمیڈلز تقسیم کیے لیکن ربیعہ ہال سے باہر ہونے کی وجہ سے اپنا گولڈ میڈل اور سرٹیفکیٹ حاصل کرنے سے محروم رہیں۔
بعدازاں بھارتی صدر کے جانے کے بعد ربیہا کریم کو ہال میں واپس بلایا گیا، انہیں سرٹیفکیٹ اور گولڈ میڈل پیش کیا جسے لینے سے انہوں نے صاف انکار کردیا۔
ربیعہ کریم نے گولڈ میڈل لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ "صدر کی آمد پر مجھے میرے ہی کونووکیشن سے باہر نکال دیا گیا، میرا اب گولڈ میڈل لینے سے انکار کرنا بھارتی شہریت کے متازع بل کے خلاف احتجاج ہے ساتھ ہی میں ان طلبہ سے اظہار یکجہتی کرتی ہوں جنہوں نے اس کے خلاف آواز بلند کی ہے۔"
مزید جانیے: طلبہ پر تشدد کیخلاف بالی وڈ اداکار بھی بول پڑے
دوسری جانب یونیورسٹی انتظامیہ نے پولیس اور ربیعہ کے درمیان ہونے والے پورے معاملے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
خیال رہے کہ بھارتی شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج میں نئی دہلی کی جامعہ ملیہ، اترپردیش کی علی گڑھ یونیورسٹی اور لکھنؤ کے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے طلبہ پیش پیش ہیں جب کہ بھارت کی دیگر بڑی جامعات اور تعلیمی اداروں کے طلبہ بھی سراپا احتجاج ہیں۔
متنازع شہریت قانون کیا ہے؟
متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروایا گیا تھا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دیدی تھی۔
بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بل پیش کیا گیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔
تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق اس متنازع ترمیمی بل کو ایوان زیریں (لوک سبھا) میں 12 گھنٹے تک بحث کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔
ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بھی اس متنازع بل کو کثرت رائے سے منظور کیا جا چکا ہے۔
متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔