پاکستانی شہری قائداعظم کا خاندان ہیں

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے سیاسی اصطلاح میں ایک ریاست کے شہری کی حیثیت سے— فوٹو فائل

بھارتی حکومت کے متنازع قانون شہریت پر ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ یہ قانون بھارت کے مسلمان شہریوں کے ساتھ امتیاز کرتا ہے۔ ریاست کسی مذہبی گروہ کے ساتھ ترجیحی سلوک کرے یا امتیازی، ہر دو صورتوں میں اپنے فرض سے کوتاہی کی مرتکب ہوتی ہے۔

ریاست کا کام کسی مذہبی امتیاز کے بغیر اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا اور انہیں ایک جیسے مواقع، حقوق اور رتبے کی ضمانت دینا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ بھارت میں مسلمان شہریوں کے شانہ بشانہ لاکھوں ہندو بھی احتجاج میں شریک ہیں۔ اب تک 25سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

یہ باشعور افراد جانتے ہیں کہ مذہبی امتیاز سے صرف اقلیت متاثر نہیں ہوتی بلکہ ہر شہری کا رتبہ دھندلا جاتا ہے۔ قوم ایک دستوری بندوبست کے سائے میں بسنے والے شہریوں کے معاشرتی رشتوں سے مرتب ہوتی ہے۔ ہر انسان کا حق عقیدہ قابل احترام ہے۔ مذہبی آزادی میں کسی کے عقیدے پر حکم لگانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ عقیدہ دلیل سے ماورا منطقہ ہے۔

دوسری طرف مختلف گروہوں اور طبقات کے متنوع مفادات پر بحث مباحثے سے باہم سمجھوتے کی راہ نکالنا سیاست ہے۔ سیاست دلیل ہے، عقیدہ تسلیم ہے۔ عقیدے اور سیاست کو خلط ملط کرنے سے عقیدے کا احترام مجروح ہوتا ہے اور سیاسی مکالمے میں ناقابل عبور دیواریں حائل ہو جاتی ہیں۔

یہ تو رہا اصول کا بیان، اس سے آگے بھارت کی حکومت جانے اور وہاں کے شہری۔ بھارت کے مردے بھارت میں گڑیں گے۔ اگر انہوں نے عقل سے کام لیا تو ترقی کریں گے اور اگر تعصب کو ہوا دی تو نتیجہ بھگتیں گے۔ ہمارے ملک میں اس مسئلے پر خلط مبحث شروع ہو گیا۔

ایک ہی سانس میں بھارت کی مذمت بھی کی جا رہی ہے اور ساتھ میں مذہبی افتراق کی عذر خواہی بھی۔ اس دیس میں دانشوروں کی کوئی کمی نہیں۔ یہاں بھاڑے کے دانشور بھی موجود ہیں اور بھرتی کے دانشور بھی۔ کچھ اہل کار ریاستی منصب کے بل پر دانش کے لعل و گہر اگلتے ہیں۔ ہمیں امریکہ میں ناؤم چومسکی اور بھارت میں ارون دھتی رائے پسند ہیں۔

اپنے ملک میں ہم ایسی آوازوں کو ففتھ جینریشن وار فیئر کے نام پر توپ دم کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی نصف صدی پہلے شیر علی خان نام کے ایک قدوسی دانشور یہاں اترے تھے۔

انہوں نے مشرقی پاکستان کے سیاسی اور معاشی تحفظات کو وہاں کے ہندو اساتذہ سے منسوب کر کے گویا قصہ نبٹا دیا تھا۔ اب ایک بلند پایہ قومی دانشور قائداعظم کے ایسے اقوال کی آڑ میں ہندو مسلم تضاد کا نقارہ پیٹ رہے ہیں جو بانی پاکستان نے پاکستان کا مقدمہ لڑتے ہوئے پیش کئے تھے۔

پاکستان بن گیا تو قائداعظم نے ہمیں ایک خاندان بننے کی نوید دی تھی اور فرمایا تھا، ’’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی اصطلاح میں نہیں بلکہ سیاسی اصطلاح میں، ایک ریاست کے شہری کی حیثیت سے‘‘۔

پاکستان کے 22کروڑ شہری قائداعظم کا خاندان ہیں اور اس خاندان میں ساٹھ لاکھ ہندو ہم وطن شامل ہیں۔ درویش اگر اپنے ہندو ہم وطنوں سے شمہ برابر امتیاز روا رکھے تو خود کو قائداعظم کا ناخلف بیٹا سمجھے گا۔ آئیے دیکھیں کہ قائداعظم نے قیام پاکستان کے بعد ہمیں کیا درس دیا تھا۔

معروف صحافی ایس ایم شرما قائداعظم کے قدیمی شناسا تھے۔ تقسیم ہند کے وقت ڈیلی گزٹ کراچی کے مدیر تھے۔ بھارت چلے جانے کے بعد شرما صاحب نے ایک کتاب لکھی Peeps into Pakistan۔ایک اقتباس دیکھیے۔

جون 1947 میں مجھے یوسف ہارون نے فون کر کے کہا کہ قائداعظم تم سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ میں حسب ارشاد مسٹر جناح سے ان کی کوٹھی 10اورنگ زیب روڈ پر ملا۔ وہ بڑی اچھی طرح پیش آئے اور ہاتھ ملانے کے بعد بغیر کسی تمہید کے کہنے لگے’’تم کراچی میں بدستور رہنا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان زیادہ اچھے، خوشگوار اور پائیدار تعلقات قائم کرنے میں میری مدد کرنا۔ اب جب کہ میں نے پاکستان حاصل کر لیا ہے مجھے ہندوؤں کے خلاف کسی قسم کا غصہ نہیں رہا۔ میں اپنے ’ہندو مسلم اتحاد کے سفیر‘ کے تاریخی کردار کی طرف لوٹ جانا چاہتا ہوں۔ جس طرح میں ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کا علم بردار رہا، اب پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا محافظ بننا چاہتا ہوں‘۔

’سنو میرے عزیز، میں اپنے آپ کو پاکستان میں ہندوؤں کا محافظ اعظم (Protector General) بنانا چاہتا ہوں میں اس کام میں تمہاری مدد چاہتا ہوں‘۔

9جنوری 1948کو کراچی کے فسادات سے متاثرہ علاقے کے دورے کے موقع پر قائداعظم محمد علی جناح نے ’ہندو ہمسایوں کو بچاؤ‘ کے نام سے یہ پیغام جاری کیا’’میں تمام مسلمانوں کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ اس بدامنی کے ذمہ دار قانون شکن اور سازشی لوگوں کے خلاف سرکار اور اس کے عملے کے ساتھ ہندو ہمسایوں کو بچانے میں بھرپور تعاون کریں۔ پاکستان میں غدار، سازشی اور بے ہنگم ہجوم کے بجائے باضابطہ آئینی سرکار کی حکمرانی ہو گی‘‘۔

محترم ریاستی دانشور کے لئے ایک اقتباس لیفٹنٹ جنرل (ریٹائرڈ) گل حسن کی یادداشتوں سے بھی پیش کر دیا جائے۔ ’’اے ڈی سی کی حیثیت سے میری ڈیوٹی کے آخری ایام تھے کہ کراچی میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑک اٹھے۔ ان دنوں قائداعظم بے حد فکر مند دکھائی دیتے تھے۔

ایک دن مجھے بلا کر انہوں نے پوچھا کہ کیا میں نے اپنے ہندو دوست کو کھانے پینے کی چیزیں بھجوائی ہیں۔ میں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے انہیں بتایا کہ میں گورنر جنرل ہاؤس کی کار استعمال کرتا رہا ہوں اور ضروری اشیا خریدنے کے لئے ڈرائیور کو اپنی جیب سے رقم دی ہے۔اور یہ سارا سامان اس وقت ہندو دوست کے گھر بھیجا جب رات کو کرفیو نافذ ہوتا تھا۔انہوں نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا، ’مجھے تم پر فخر ہے۔ پاکستان کے لوگ جب بھی مصیبت میں مبتلا ہوں، ان کی مدد کرنی چاہئے‘۔

درویش کو دانش کا دعویٰ نہیں، قائداعظم کا فرمان البتہ حرز جاں ہے، ’’پاکستان کے لوگ جب بھی مصیبت میں مبتلا ہوں، ان کی مدد کرنی چاہئے‘‘۔پاکستان بننے کے بعد قائداعظم کی نظر میں کسی پاکستانی شہری کی پہلی اور آخری پہچان پاکستانی ہونا تھی نہ کہ اس شہری کا عقیدہ۔

مزید خبریں :