28 دسمبر ، 2019
اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی آرڈیننس صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے دستخط کے بعد نافذالعمل ہوگیا ہے اور اپوزیشن نے اس آرڈیننس کو یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے ساتھیوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے یہ آرڈیننس جاری کیا۔
تاہم ذرائع کے مطابق ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے سابق صدر آصف زرداری، سابق وزرائے اعظم نواز شریف، شاہد خاقان اور یوسف رضا گیلانی اور اپوزیشن کے دیگر ارکان مستفید ہو سکیں گے۔
ذرائع نے بتایا کہ نیب ترمیمی آرڈیننس میں نواز شریف کی ایون فیلڈ ریفرنس کی سزا عدالت کے ذریعے ختم ہو سکے گی جبکہ آصف زرداری کا جعلی بینک اکاؤنٹس کیس بھی ترمیمی آرڈیننس کے باعث غیر مؤثر ہو جائے گا۔
ذرائع نیب حکام کے مطابق نئے آرڈیننس میں بد نیتی یا طریقہ کار کے باعث بے ضابطگی کرپشن تصور نہیں ہوتی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے آرڈیننس کے ذریعے سابق وزیراعظم پرویز اشرف، سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال اور سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل فائدہ حاصل کر سکیں گے جبکہ سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، سابق سینیئر صوبائی وزیر علیم خان، فواد حسن فواد بھی نیب ترمیمی آرڈیننس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
ذرائع نے بتایا کہ نیب ترمیمی آرڈیننس کا اطلاق عدالتوں میں زیر سماعت اور نیب میں زیر تفتیش مقدمات پر بھی ہو گا، اکثر مقدمات دیگر عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق تمام سیاسی رہنماؤں کے خلاف نیب مقدمات بد نیتی کو بنیاد بنا کر بنائے گئے تھے تاہم جن مقدمات میں کرپشن کا عنصر ثبوت کے ساتھ موجود ہوگا وہ بدستور قائم رہیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب مقدمات میں ٹرائل کورٹ سے سزا پانے والے اعلیٰ عدالتوں میں ریلیف کےلیے اپیل کر سکیں گے۔
نیب ترمیمی آرڈیننس سے متعدد حکومتی شخصیات بھی مستفید ہو سکیں گی جن میں بڑے بڑے نام شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور سینیئر صوبائی وزیر عاطف خان بھی نیب آرڈیننس سے فائدہ اٹھا سکیں گی۔
ذرائع نے بتایا کہ سابق وزیراعلیٰ کے پی کے و موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیر اعظم کے سیکریٹری اعظم خان بھی نیب آرڈیننس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ محمود خان، عاطف خان، اعظم خان اور پرویز خٹک کے خلاف نیب میں تحقیقات اور انکوائریز چل رہی ہیں، ان حکومتی شخصیات کے خلاف مالم جبہ اور بی آر ٹی کیس میں تحقیقات اور انکوائریاں چل رہی ہیں۔
خیال رہے کہ اپوزیشن کی جانب سے نیب ترمیمی آرڈیننس کی مخالفت کی گئی ہے اور الزام لگایا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے خود کو اور دوستوں کو بچانے کیلئے نیب آرڈیننس کا سہارا لیا۔
یاد رہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد محکمانہ نقائص پر سرکاری ملازمین کے خلاف نیب کارروائی نہیں کرے گا جب کہ ترمیمی آرڈیننس سے ٹیکس اور اسٹاک ایکسچینج سے متعلق معاملات میں بھی نیب کا دائرہ اختیار ختم ہوجائے گا۔
وزارت قانون کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق نیب حکومتی منصوبوں اور اسکیموں میں بے ضابطگی پر پبلک آفس ہولڈر کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گا، تاہم کسی پبلک آفس ہولڈر نے بے ضابطگی کےنتیجے میں مالی فائدہ اٹھایا تو نیب کارروائی کر سکتا ہے۔
وفاقی و صوبائی ٹیکس اور لیویز کے زیر التوا مقدمات بھی متعقلہ محکموں یا متعلقہ عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے۔
آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازم کی جائیداد کو عدالتی حکم نامے کے بغیر منجمد نہیں کیا جا سکے گا اور اگر تین ماہ میں نیب تحقیقات مکمل نہ ہوں تو گرفتار سرکاری ملازم ضمانت کا حقدار ہوگا مگر سرکاری ملازم کے اثاثوں میں بے جا اضافے پر اختیارات کے ناجائز استعمال کی کارروائی ہو سکے گی۔
اس کے علاوہ نیب 50 کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن اور اسکینڈل پر کارروائی کر سکے گا۔