29 دسمبر ، 2019
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب و داخلہ امور بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ نیب کے ترمیمی آرڈیننس کی سراسر غلط تشریح کی جارہی ہے، اس قانون سے کس کس کو فائدہ ہوگا اس بات کا فیصلہ عدالتیں کریں گی۔
اسلام آباد میں وفاقی وزیر برائے مواصلات مراد سعید اور وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے داخلہ و احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس کی۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے بیرسٹر شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ میں اپنی چھٹیوں پر تھا لیکن ایک کنفیوژن کو دور کرنے آیا ہوں، کنفیوژن کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 10 سال سے نیب کے قوانین تبدیل کرنے کی خواہشیں تھیں لیکن ان خواہشوں میں بدنیتی شامل تھی۔
انہوں نے کہا کہ نیب کے ترمیمی آرڈیننس کی ایک مدت ہے، ترمیمی آرڈینینس نے پارلیمینٹ کے سامنے بھی جانا ہے، ترمیمی آرڈیننس سے فیصلہ سازی میں اعتماد آئے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں احتساب کا قانون سخت ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون میں کلیری فیکیشن کی ضرورت ہوتی ہے، احتساب کا عمل ختم ہونے کا تاثر غلط ہے، اس میں وضاحت کی گئی ہے کہ ٹیکسیشن کے معاملات ایف بی آر دیکھے گا لہٰذا نیب ترمیم کو دیکھے بغیر تنقید کی جارہی ہے۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ آرڈیننس کا سیکشن 4 بتائے گا کہ قانون کہاں اپلائی ہوگا، کوئی بھی شخص جس کا پبلک آفس ہولڈر سے کوئی رابطہ نہیں، اس کے معاملے میں نیب کا قانون لاگو نہیں ہوگا، پرائیویٹ آدمی پر ذرائع سے زائد اثاثوں کا کیس نہیں بن سکتا، بریچ آف ٹرسٹ پر نیب کا قاون لاگو ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ آرڈیننس پارلیمنٹ کے سامنے جائے گا، آرڈیننس کی ایک مدت ہوتی ہے، اس قانون کا فائدہ کس کو ہوگا کس کو نہیں اس کا فیصلہ عدالتیں کریں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ کہا جارہا ہے کہ بیوروکریسی کو رعایت دی گئی ہے، اس میں سیاستدان اور بیوروکریسی دونوں شامل ہیں، بیوروکریسی کو فیصلہ سازی میں اعتماد دینے کے لیے یہ دفاع دیا گیا، ضمانت اور ریمانڈ کا قانون تبدیل نہیں ہوا، آج تک جتنی تجاویز لائی گئیں وہ ایمانداری پر مبنی نہیں تھیں لہٰذا ابو بچاؤ مہم پر کوئی تعاون نہیں ہوگا۔
پریس کانفرنس سے خطاب میں وفاقی وزیر مراد سعید پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کو پرچی والا جونیئر زرداری کہہ کر پکارتے رہے۔
وفاقی وزیر نے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کا نام لیے بغیر ان پر سنگین الزامات بھی عائد کیے اور کہا کہ بلاول بھٹو جب پڑھتے تھے تو ان کی والدہ ان سے فون پر جعلی اکاؤنٹس کی بات کرتی تھیں اور جعلی اکاؤنٹس کا پوچھتی تھیں، یہ بات امریکی سی آئی اے بھی سنتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جونیئر زرداری مولانافضل الرحمان کے کنٹینر پر چڑھ گیا یہ لبرلی کرپٹ ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ زرداری این آر او کے لیے امریکا کے پاؤں پڑے تھے، این آر او کے لیے سابق صدر زرداری نے امریکا کو کہا ڈرون حملے کریں، ہم سنبھال لیں گے لیکن اب ان کو این آر او نہیں ملے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ملک کے اندر احتساب کا شعور عمران خان نے دیا، پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے حکومت کے اقدامات سامنے ہیں، عمران خان نے معیشت کو آئی سی یو سے نکالا لیکن جنہوں نے ملک لوٹا تھا، ان کا احتساب ہوگا۔
یاد رہے کہ 27 دسمبر کو وفاقی کابینہ نے بذریعہ سرکولیشن قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی آرڈیننس 2019 کی منظوری دی تھی جس کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی آرڈیننس پر دستخط کیے تھے۔
صدر مملکت کے نیب ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کے بعد یہ نافذ العمل ہوگیا ہے تاہم اپوزیشن کی جانب سے آرڈیننس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے اور تمام جماعتوں نے اسے مسترد کیا ہے۔
یاد رہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد محکمانہ نقائص پر سرکاری ملازمین کے خلاف نیب کارروائی نہیں کرے گا جب کہ ترمیمی آرڈیننس سے ٹیکس اور اسٹاک ایکسچینج سے متعلق معاملات میں بھی نیب کا دائرہ اختیار ختم ہوجائے گا۔
وزارت قانون کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق نیب حکومتی منصوبوں اور اسکیموں میں بے ضابطگی پر پبلک آفس ہولڈر کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گا، تاہم کسی پبلک آفس ہولڈر نے بے ضابطگی کےنتیجے میں مالی فائدہ اٹھایا تو نیب کارروائی کر سکتا ہے۔
وفاقی و صوبائی ٹیکس اور لیویز کے زیر التوا مقدمات بھی متعقلہ محکموں یا متعلقہ عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے۔
آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازم کی جائیداد کو عدالتی حکم نامے کے بغیر منجمد نہیں کیا جا سکے گا اور اگر تین ماہ میں نیب تحقیقات مکمل نہ ہوں تو گرفتار سرکاری ملازم ضمانت کا حقدار ہوگا مگر سرکاری ملازم کے اثاثوں میں بے جا اضافے پر اختیارات کے ناجائز استعمال کی کارروائی ہو سکے گی۔
اس کے علاوہ نیب 50 کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن اور اسکینڈل پر کارروائی کر سکے گا۔