پاکستان
Time 29 دسمبر ، 2019

پیپلز پارٹی نے نیب ترمیمی آرڈیننس کو ’مدر آف این آر او‘ قرار دے دیا

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی آرڈیننس کو مدر آف قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) قرار دے دیا۔

27 دسمبر کو وفاقی کابینہ نے بذریعہ سرکولیشن قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی آرڈیننس 2019 کی منظوری دی تھی جس کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی آرڈیننس پر دستخط کیے تھے۔

صدر مملکت کے نیب ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کے بعد یہ نافذ العمل ہوگیا ہے تاہم اپوزیشن کی جانب سے آرڈیننس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے اور تمام جماعتوں نے اسے مسترد کیا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی آرڈیننس کو مدر آف قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) قرار دیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے چيئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نیب آرڈیننس سے ثابت ہوا کہ آصف زرداری نے ٹھیک کہا تھا کہ نیب اور معیشت ساتھ نہیں چل سکتے۔

ایک بیان میں بلاول بھٹو  کا کہنا تھا کہ انسداد کرپشن سے متعلق قانون سازی کے لیے حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔

دوسری جانب اس حوالے سے پی پی رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ جب آصف زرداری نے کہاکہ نیب اور معیشت ساتھ نہیں چل سکتے تو کہا گيا ہم این آر او مانگتے ہیں لیکن اب نیب آرڈیننس لاکر حکومت نے اپنے ساتھیوں کو این آر او پلس دے دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنےساتھیوں کو بچانے کے لیے نیب میں ترامیم متعارف کرائیں، نیب اب صرف 2 سیاسی جماعتوں کا احتساب کرسکے گی۔

پی پی رہنما کا کہنا تھاکہ یوٹرن کی حد ہوگئی، عمران خان کا فائنل یوٹرن نزدیک ہے، یہ ان کی سیاست کا آخری یوٹرن ہوگا، جب سلیکٹڈ کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے تو انہیں یوٹرن دے دیا جاتاہے۔

یاد رہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد محکمانہ نقائص پر سرکاری ملازمین کے خلاف نیب کارروائی نہیں کرے گا جب کہ ترمیمی آرڈیننس سے ٹیکس اور اسٹاک ایکسچینج سے متعلق معاملات میں بھی نیب کا دائرہ اختیار ختم ہوجائے گا۔

وزارت قانون کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق نیب حکومتی منصوبوں اور اسکیموں میں بے ضابطگی پر پبلک آفس ہولڈر کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گا، تاہم کسی پبلک آفس ہولڈر نے بے ضابطگی کےنتیجے میں مالی فائدہ اٹھایا تو نیب کارروائی کر سکتا ہے۔

وفاقی و صوبائی ٹیکس اور لیویز کے زیر التوا مقدمات بھی متعقلہ محکموں یا متعلقہ عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے۔

آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازم کی جائیداد کو عدالتی حکم نامے کے بغیر منجمد نہیں کیا جا سکے گا اور اگر تین ماہ میں نیب تحقیقات مکمل نہ ہوں تو گرفتار سرکاری ملازم ضمانت کا حقدار ہوگا مگر سرکاری ملازم کے اثاثوں میں بے جا اضافے پر اختیارات کے ناجائز استعمال کی کارروائی ہو سکے گی۔

اس کے علاوہ نیب 50 کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن اور اسکینڈل پر کارروائی کر سکے گا۔

مزید خبریں :